بلقان کی ریاست سربیا کی تاریخ کا غالباً یہ سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ جس میں ’نئے سربیا‘‘ کا مطالبہ کرنے کے لیے پورے ملک سے لوگ بلغراد پہنچے۔
’’بدعنوانی قاتل ہے،‘‘ کے فلک شگاف نعروں کی گونج رہے تھےتصویر: Srdjan Stevanovic/Getty Images
اشتہار
’’بدعنوانی قاتل ہے،‘‘ کے فلک شگاف نعروں کی گونج میں بلغراد میں ہفتے کو مظاہرین کا تاریخی مظاہرہ ہوا۔ مبصرین کے اندازوں کے مطابق 275,000 سے 325,000 کے درمیان مظاہرین سربیا کے دارالحکومت میں جمع ہوئے۔ وزارت داخلہ کا تاہم دعویٰ ہے کہ شرکاء کی تعداد 107,000 تھی۔
بلقان کی ریاست سربیا کی تاریخ کا غالباً یہ سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ جس میں 'نئے سربیا‘‘ کا مطالبہ کرنے کے لیے پورے ملک سے لوگ بلغراد پہنچے۔
کان کنی کی وجہ سے بےگھر سربیائی، اپنی بقا کے لیے پر عزم
سربیا میں تانبے کی ایک کان میں چینی کمپنی کے ہاتھوں کان کنی کی سرگرمیوں نے قریب واقع ایک پورے گاؤں کو نگل لیا ہے تاہم وہاں کے رہائشی اب بھی اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔
تصویر: Marko Djurica/REUTERS
لامتناہی سلسلہ
سربیا میں کریولج گاؤں کے قریب ایک پہاڑی کی چوٹی سے نظر آنے والا یہ بور نامی قصبہ ہے، جو کان کنی کی وجہ سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔ یہاں کی زمین قریبی تانبے کی کان سے کھدائی کے بعد نکالے گئے فضلے کے ڈھیروں سے اٹی پڑی ہے۔ کریولج میں گھروں کی دیواریں کان کنی کے لیے زیر زمین دھماکوں کے جھٹکوں سے پھٹ چکی ہیں اور کچھ گھر تومکمل طور پر منہدم بھی ہو چکے ہیں۔
تصویر: Marko Djurica/REUTERS
لڑنے کے لیے تیار
گاؤں کی ایک رہائشی ووکوساوا ریڈیوجیوک کا کہنا ہے، ’’ایک دن میں گاؤں کے درمیان کھڑی تھی اور قریب سے گزرنے والے ایک ٹرک کو دیکھ رہی تھی۔ گاؤں کا نزدیکی چھوٹا پل اس کے وزن کے نیچے جھول رہا تھا۔‘‘ وہ اپنے گاؤں کے نزدیک کان کنی کے خلاف باری باری احتجاج کرنے والی دو درجن خواتین میں سے ایک ہیں۔ ان کے پیچھے سڑک پر رکھی گئی ایک رکاوٹ پر ’’ناکہ بندی‘‘ لکھا ہوا ہے اور یہ کہ اس کا اطلاق 24 گھنٹے ہو گا۔
تصویر: Marko Djurica/REUTERS
’ہم اپنے گاؤں کا دفاع کر رہے ہیں‘
گاؤں میں رکھی گئی رکاوٹ پر کھڑی 79سالہ گھریلو خاتون سٹانا جورگوانووک کا کہنا ہے، ’’ہم اپنے گاؤں اور ان گھروں کا دفاع کر رہے ہیں، جہاں ہم پیدا ہوئے تھے۔ مجھے اپنے خوبصورت گاؤں کے بارے میں بہت افسوس ہے۔‘‘
تصویر: Marko Djurica/REUTERS
مقامی آبادی نگلی جا رہی ہے
کان کن کریولج میں 1970ء کی دہائی سے سرگرم ہیں، تاہم 2018ء کے بعد چینی کمپنی زیجن مائننگ کی طرف سے یہاں کان کنی کا آپریشن سنبھالنے کے بعد سے پیداوار میں چار گنا اضافہ کر دیا گیا۔ اب کان سے نکلنے والے فضلے کے ڈھیر گاؤں کے کچھ حصوں کو نگل رہے ہیں، اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے سربیا کی ذیلی کمپنی سربیا زیجن کاپر نے لوگوں کی متبادل جگہ پر دوبارہ آبادکاری شروع کر دی ہے۔
تصویر: Marko Djurica/REUTERS
نئے گھر کی امید
22 سالہ ٹیوڈورا ٹومک ایک طالبہ ہیں، انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’ہم زیجن کمپنی کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم اب بھی موجود ہیں۔ میں کان کنی کے اثرات سے پاک ایک نئے گاؤں کی امید کر رہی ہوں ۔‘‘ کریولج میں زیادہ تر لوگ ولاچ، آرتھوڈوکس عیسائی ہیں، جنہوں نے صدیوں سے اپنی زبان اور رسم و رواج کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔ وہ ایک کمیونٹی کے طور پر دوبارہ آباد ہونا چاہتے ہیں۔
تصویر: Marko Djurica/REUTERS
ایکشن لینےکے لیے متحد
کریولج کے کچھ رہائشیوں نے مقامی ماحولیاتی مسائل پر گاؤں میں منعقدہ ایک کمیونٹی میٹنگ میں کان کنی کی سرگرمیوں کی وجہ سے بہت سے ٹرکوں کی موجودگی میں اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے تشویش کا اظہار کیا۔ بعض دوسرے افراد نے اپنے باغات میں سبزیاں لگانا بند کر دی ہیں کیونکہ حکام نے انہیں خبردار کیا ہے کہ زمین آلودگی کا شکار ہو چکی ہے۔
تصویر: Marko Djurica/REUTERS
’ماحولیاتی اثرات سے نمٹنے کے لیے لاکھوں کی سرمایہ کاری‘
چین کی زیجن مائننگ کا کہنا ہے کہ اس نے علاقے میں کان کنی کے منفی ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے 100 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کمپنی نے روئٹرز کو ایک بیان میں کہا، ’’ان مشترکہ کوششوں نے کریولج گاؤں کے ماحول کو بہتر بنانے میں براہ راست کردار ادا کیا ہے۔‘‘
تصویر: Marko Djurica/REUTERS
ایک ساتھ رہنے کی خواہش
گاؤں کے ایک ایلیمنٹری اسکول ٹیچر میلوسوا فوفانووک نے کہا، ’’میں کریولج کا ایک نیا گاؤں چاہتی ہوں۔ مجھے زمین کا ایک ٹکڑا، ایک گرجا گھر اور ایک قبرستان چاہیے۔ اگر تمام لوگ بھی یہاں کھڑی کی گئی احتجاجی رکاوٹوں سے پیچھے ہٹ جائیں تو میں وہ آخری شخص ہوں گی، جو یہاں کھڑا ہوں گی۔‘‘ گاؤں کے رہائشی ایک کمیونٹی گروپ کے طور پر مکمل انفراسٹرکچر کے ساتھ ایک نئے گاؤں میں منتقل ہونے پر اصرار کر رہے ہیں۔
تصویر: Marko Djurica/REUTERS
’بچوں کی حفاظت داؤ پر‘
گاؤں کی رہائشی ایک اور استاد سلاویکا لازاروک کا کہنا ہے، ’’ہمارے بچوں کی حفاظت خطرے میں ہے۔ مجھے امید ہے کہ تمام لوگ ایک ساتھ چلیں گے تاکہ ہم اپنی نسل کو برقرار رکھ سکیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’میں ایک نئے اسکول کی امید کر رہی ہوں، جہاں میں پڑھا سکوں۔‘‘
تصویر: Marko Djurica/REUTERS
نقل مکانی کی پیشکش کافی نہیں
گاؤں میں ہر کوئی اس بات پر متفق ہے کہ زیجن مائننگ کی طرف سے پیش کردہ نقل مکانی کا منصوبہ ناکافی ہے۔ 58 سالہ ڈیبیکا کوسٹینڈیڈنووی نے کہا، ’’ہم نے اپنا گھر برسوں تک بنایا ہے، جو رقم (زیجن) ہمیں اس کے لیے دے رہی ہے، اس سے ہم ایک بھی اپارٹمنٹ نہیں خرید سکتے۔‘‘ تاہم اس چینی کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے گاؤں والوں کے لیے نقل مکانی کے منصوبے شفافیت اور انصاف کے ساتھ تیار کیے ہیں۔
تصویر: Marko Djurica/REUTERS
10 تصاویر1 | 10
کسان، طلباء اور دیگر شہری شانہ بشانہ بلغراد کی سڑکوں پر ملک میں پائی جانے والی کرپشن کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ سربیا کے میڈیا کی ڈرون فوٹیج میں بلغراد کے مرکز میں سڑکیں مظاہرین سے کھچا کھچ بھری ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ ہجوم تحریک کا نعرہ ''پمپج! پمپج!‘‘ لگا رہا تھا۔ پمپج کا انگریزی مطلب ہے 'پمپ اِٹ‘ اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بھلے جتنے بھی مظاہرین کو گرفتار کیا جاتا ہے یا روکا جاتا ہے، نئی آوازیں ان کی جگہ لیتی رہیں گی۔
مبصرین کے اندازوں کے مطابق 275,000 سے 325,000 کے درمیان مظاہرین سربیا کے سڑکوں پرتصویر: Igor Pavicevic/REUTERS
بہت سے لوگوں نے احتجاج کی علامت کے طور پر ہاتھوں میں خون آلود بیجز پہنے ہوئے تھے ۔ اس بہت بڑی ریلی کا مرکز بلغراد کا سلاویجا اسکوائر تھا جہاں منتظمین نے اسٹیج بنا رکھا تھا۔
’’ 15تاریخ کو 15 کے لیے‘‘
یہ مظاہرہ ہفتہ 15 مارچ کو علامتی طور پر کیا گیا جس کا مقصد یکم نومبر کو شمالی سربیا کے شہر نووی سد میں ہلاک ہونے والے 15 افراد کو یاد کرنا تھا۔ اس واقعے میں ایک نو تعمیر شدہ عمارت کے ایک گنبد کے انہدام کے نتیجے میں 15 افراد کی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ اس واقعے نے مغربی بلقان ریاست میں مظاہروں اور احتجاج کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔ مظاہرین اس واقعے کا ذمہ دار جزوی طور پر ملک کے صدر الیگزانڈرووچک کی حکومت کی بدعنوانی کو ٹھہرا رہے ہیں۔
بلقان کی ریاست سربیا کی تاریخ کا غالباً یہ سب سے بڑا مظاہرہ تھاتصویر: Iva Manojlović/DW
اختلافی سیاسی نظریات والے بھی احتجاج میں شامل
ہفتہ کو ہونے والا احتجاج اور اس سے پہلے ہونے والے دیگر مظاہروں میں بھی معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے، بائیں اور دائیں دونوں طرف کی سیاست سے منسلک افراد اکٹھا ہو کر سراپا احتجاج بنے۔ سربیا میں ماحولیاتی تحفظ سے لے کر سابقہ الگ ہونے والے صوبے کوسوو کی سربیا میں دوبارہ شمولیت کے مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ شام ساڑھے سات بجے کے قریب طلبہ کے ایک گروپ نے سکیورٹی خدشات کے سبب تمام مظاہرین سے پارلیمنٹ کے قریب کے علاقے سے باہر نکلنے کو کہا۔ اطلاعات کے مطابق اس جگہ مبینہ طور پر بوتلیں اور پتھر پھینکے جا رہے تھے۔
یہ مظاہرہ ہفتہ 15 مارچ کو علامتی طور پر کیا گیا جس کا مقصد یکم نومبر کو شمالی سربیا کے شہر نووی سد میں ہلاک ہونے والے 15 افراد کو یاد کرنا تھاتصویر: Mitar Mitrovic/REUTERS
ہفتے کی رات دیر سے صدر الیگزانڈرووچک نے اپنے بیان میں پولیس اہلکاروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنی پولیس پر فخر ہے جس نے ان مظاہروں کے دوران سکیورٹی کو یقینی بنایا۔ سیاسی مخالفت کے شکار صدر ووچک نے ایک روز قبل کہا تھا کہ وہ، ''اس ملک میں سڑکوں کو اصول طے کرنے کی جگہ بنانے کی اجارت نہیں دیں گے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا انتباہ
چند تجزیہ کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ سربیا میں صورتحال مزید کشیدہ ہو سکتی ہے۔ ایک سیاسی تجزیہ کار Srdjan Cvijic نے کہا، ''ہم پہلے ہی کچھ دنوں سے دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کشیدگی کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘
اُدھر حکومت کے حمایت یافتہ میڈیا نے بھی بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی کے الزامات کا ذمہ دار طلباء کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ''بغاوت‘‘ شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔