1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلقان کی سرحد پر موجود مہاجرین کو پولیس کے تشدد کا سامنا

24 اکتوبر 2021

بوسنیا کے سرحدی علاقے میں جمع غیر ملکی مہاجرین کو شدید سردی نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ ان مایوسی کے شکار مہاجرین کو کروشیائی پولیس کی جانب سے تذلیل اور مارپیٹ کا بھی سامنا ہے۔

Flüchtlinge Ungarn
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bandic

یورپی یونین کے ممالک میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کی امید رکھنے والے کئی مہاجرین کی کروشیا اور بوسنیا کی سرحد سے آگے جانے کی کوششیں محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ شدید سردی میں یہ لوگ قریبی جنگلاتی علاقوں سے لکڑیاں جمع کرکے انہیں جلاتے ہیں تا کہ سردی میں انہیں حدت میسر ہو سکے۔

بوسنیا کی خاتون جنگل میں مہاجرین کی کیسے مدد کر رہی ہے؟

اطلاعات کے مطابق ان مہاجرین کو کروشیا کی پولیس کے شدید ناروا سلوک کا بھی سامنا ہے۔ پولیس اہلکار ان مہاجرین کی بے عزتی کے ساتھ ساتھ انہیں مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

بلقان علاقے میں جمع مہاجرین کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہےتصویر: Jelena Djukic Pejic/DW

تفتیشی رپورٹ

سرحدی علاقے کے کیمپ کے ان مہاجرین کے ساتھ ایسے سلوک کے بارے میں جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل اور فرانسیسی اخبار لبریشن نے مشترکہ طور پر ایک تفتیشی رپورٹ مکمل کی ہے۔ یورپی کمیشن نے اس رپورٹ کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ ایسے تمام اقدامات کو غیر قانونی عمل قرار دیا گیا ہے اور ہر ملک کے حکام کو ایسے واقعات کی تفتیش کا ذمہ دار  ٹھہرایا گیا ہے۔

کیا یورپی سرحدی پولیس مہاجرین کو پیچھے دھکیل رہی ہے؟

کروشیائی پولیس کا سلوک

بلقان خطے کی سرحد پر جمع مہاجرین میں زیادہ تر کا تعلق افغانستان سے ہے۔ ان میں سے ایک بتیس برس کا ابراہیم رسول ہے، اس نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ کروشیا کی پولیس انتہائی نامناسب رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ اہلکار غیر انسانی برتاؤ کرتے ہیں اور ان کا انداز جنگلی جانوروں جیسا ہے اور وہ کسی ایک کو بھی نہیں بخشتے، خواہ وہ عورت ہو یا کوئی بچہ یا نوجوان یا بڑی عمر کا، سبھی کو ذلیل کرنے کے علاوہ مارنے سے بھی نہیں چوکتے۔

مختلف سرحدی مقامات پر مہاجرین کو روکنے کے لیے پولیس کی خصوصی نفری تعینات کی گئی ہےتصویر: Imago Images/C. Mang

یہ مہاجر کیمپ بوسنیا اور کروشیا کی سرحد پر واقع ایک بوسنیائی قصبے ویلیکا کلاڈوسا میں واقع ہے۔ اس میں مقیم مہاجرین کی بڑی تعداد شورش زدہ ملک افغانستان سے تعلق رکھتی ہے۔ اگست میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

مہاجرین کی شکایتیں

گزشتہ کئی ہفتوں سے ویلیکا کلاڈوسا کیمپ کے مہاجرین پولیس کے ناروا سلوک کا ذکر نیوز ایجنسیوں یا ریفیوجی اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ایسی تمام شکایتیں بظاہر کوئی مثبت نتیجہ سامنے لانے میں ناکام رہی ہیں۔

کروشیا میں پاکستانی سمیت 13 انسانی اسمگلر گرفتار

ایسی رپورٹیں ہیں کہ ان مہاجرین کو رومانیہ، یونان اور کروشیا کی پولیس کے خصوصی یونٹ مختلف حیلوں اور حربوں سے نشانہ بنانے کا سلسلہ ڈھکے چھپے انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں کروشیا کے دارالحکومت زغرب کا کہنا ہے کہ اس کی پولیس سے زیادتی کے واقعات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ یہ اپنی طرز کا پہلا اعتراف تھا۔ یونان نے ایسی رپورٹوں کی تفتیش کرنے کا ضرور اعلان کیا تھا۔

کئی مہاجرین زخمی حالت میں ہیں لیکن یورپ پہنچنے کی دُھن سر پر سوار ہےتصویر: Jelena Djukic Pejic/DW

جنگلی جانوروں سے زیادہ خطرناک

ایک افغان مہاجر امیر علی مرزائی کا کہنا ہے کہ کروشیا میں داخل ہوتے وقت مقامی پولیس نے اس کے چار سو یورو ہتھیانے کے علاوہ موبائل فون بھی چھین لیا تھا۔ امیر علی اپنی فیملی کے ساتھ یورپ میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان کے خاندان میں ایک پانچ ماہ کا بچہ بھی سفر کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے۔کروشیا میں پولیس کی فائرنگ سے دو مہاجر بچے زخمی

ان تمام زیادتیوں اور جبر کے باوجود امیر علی اور ابراہیم رسول جیسے افراد اگلی منزل تک پہنچنے کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ ان افراد کو شدید سردی، پولیس اور جنگلی جانوروں کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ ان مہاجرین نے پولیس کو جنگلی جانوروں سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔

ع ح / ع آ (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں