1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: انسداد پولیو مہم کے پانچ ارکان اغواء

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ25 فروری 2014

پاکستانی صوبے بلوچستان کے ضلع اواران میں انسداد پولیو مہم کی ایک ٹیم میں شامل پانچ اہلکاروں کو نامعلوم افراد نے اغواء کر لیا ہے، جن میں دو محکمہ صحت کے اور تین سکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔

تصویر: DW/M. Ayub Sumbal

انسداد پولیو ٹیم پر اس حملے کے بعد ضلع اواران میں پولیو کے خلاف مہم سکیورٹی خدشات کے باعث روک دی گئی ہے۔ اس ٹیم پر حملے کی ذمہ داری ایک حکومت مخالف کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ نے قبول کر لی ہے۔

بلوچستان میں تین روزہ انسداد پولیو مہم پیرکے روز شروع ہو ئی تھیتصویر: DW

بلوچستان میں تین روزہ انسداد پولیو مہم پیرکے روز شروع ہو ئی تھی اور یہ مہم روکے جانے تک 20 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جا چکے تھے۔ پولیو ٹیم پر حملہ ضلع اواران کے جنوب مشرق میں ایک نواحی علاقے میں اس وقت پیش آیا، جب انسداد پولیو ٹیم کے رضاکار اور محکمہ صحت کے افسران ضلعی انتظامیہ کے اہلکاروں کے ہمراہ علاقے میں پولیو مہم کا جائزہ لے رہے تھے۔

لیویز حکام کے مطابق 20 سے زائد مسلح حملہ آوروں نےحملے سے قبل ڈپٹی کمشنر اواران کے قافلے پر فائرنگ کی اور بعد میں پولیو ٹیم میں شامل پانچ اہلکاروں کو اغواء کر لیا۔ اس واقعے کے بعد ضلع اواران کے ان علاقوں میں، جو عسکریت پسندوں کے گڑھ تصور کیے جاتے ہیں، سکیورٹی خدشات کے باعث یہ مہم روک دی گئی۔ تاہم صوبے کے دیگر اضلاع میں سخت حفاظتی انتظامات کے تحت یہ مہم جاری ہے۔ پاکستان میں انسداد پولیو کے حوالے سے ڈبلیواچ او کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر زبیر مفتی کے بقول انسداد پولیو کی بلوچستان میں جاری مہم میں چھ ہزارسے زائد ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا، ’’بلوچستان میں پولیو مہم جاری ہے اور پلان کے مطابق متعلقہ اضلاع میں بچوں کو حفاظتی قطرے پلائے جا رہے ہیں۔ لیکن سکیورٹی کی صورتحال خراب ہے اور اواران میں پیش آنے والا واقعہ بھی اسی کا تسلسل ہے۔‘‘

اواران میں پولیو ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہےتصویر: DW/M. Ayub Sumbal

زبیر مفتی نے مزید کہا کہ انسداد پولیو مہم کے حوالے سے سکیورٹی خدشات کے باعث بلوچستان میں پولیو مہم متاثر ہو سکتی ہے۔ اس لیے انہوں نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ پولیو کے خلاف ٹیموں کی حفاظت کو ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنایا جائے۔

زبیر مفتی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ فی الوقت پولیو مہم میں پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔ ہماری حکومت کو تجویز یہی ہے کہ ان ٹیموں کو ایسی سکیورٹی فراہم کی جائے کہ کام کے دوران وہ اپنے آپ کو محفوظ تصور کریں اور سکیورٹی خدشات ان کی کارکردگی کو متاثر نہ کریں۔‘‘

اواران میں پولیو ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ اس کارروائی میں کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بی ایل ایف کے 10 مشتبہ ارکان بھی ہلاک کر دیے گئے۔ اس دروان بڑے پیمانے پر اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کر لیا گیا تاہم ابھی تک اغوا شدگان کو بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔

بلوچستان میں سکیورٹی خدشات کے باعث انسداد پولیو مہم کے حوالے سے صوبے کے 12 اضلاع کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ گزشتہ برس بھی کوئٹہ سمیت صوبے کے بعض علاقوں میں انسداد پولیو کی ٹیموں پر حملے کیے گئے تھے، جس نے صوبے میں اس مہم کو متاثر کیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں