1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

بلوچستان اور سندھ کے مابین پانی کی تقسیم کا دیرینہ تنازعہ

21 جون 2022

بلوچستان اور سندھ میں پانی کی تقسیم کا دیرینہ تنازعہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ پانی کے شدید بحران سے غذائی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ گندم نہ ہونے کے باعث کوئٹہ میں تیس فلورملیں بند کردی گئی ہیں۔

Pakistan I Pishin
رواں سال بلوچستان میں گندم کی فصل بھی پانی کی شدید قلت سے بری طرح متاثر ہوئی ہے، صوبے کی اکثر فلور ملوں کو حکومت نے گندم کا مطلوبہ کوٹہ بھی فراہم نہیں کیا۔تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان اورصوبہ سندھ کے مابین پانی کی تقسیم کا معاملہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ بلوچستان حکومت کے مطابق سندھ کی جانب سے بلوچستان کو طے شدہ مقدار سے 80  فیصد کم پانی فراہم کیا جا رہا ہے جس سے زرعی شعبہ تباہی کے دہانے تک جا پہنچا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل خشک سالی سے متاثرہ صوبہ بلوچستان میں پانی کی کمی کے باعث غذائی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ صوبائی محکمہ آبپاشی کے ایک سینئر اہلکار احسن داؤد کہتے ہیں کہ صوبے میں پانی کے بحران سے زرعی شعبے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں ںے کہا، ''پاکستان میں صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کے لیے سن 1991 میں جو معاہدہ طے ہوا تھا اسے سندھ حکومت نے یکسر نظرانداز کر دیا ہے۔ بلوچستان کو طے شدہ فارمولے کے تحت پانی نہیں مل رہا۔ اس وقت صوبے میں پانی کا بحران اس قدر شدید ہے کہ کسان پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔ صوبائی سطح پر اس معاملے کو کئی بار متعلقہ حکام کے سامنے اٹھایا جاچکا ہے مگروہاں سے مسلسل غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔‘‘

احسن داؤد کے بقول بلوچستان کو اس کے حق کا پانی فراہم نہ کیا گیا تودونوں صوبوں کے درمیان اختلافات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''بلوچستان ملک میں نہری نظام کے آخری حصے پر واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں دریاؤں کا پانی سندھ کے راستے گدو اور سکھر بیراج سے پٹ فیڈراور کیرتھر کینال کے ذریعے صوبے کو ملتا ہے۔ بلوچستان کوطے شدہ فارمولے کے تحت پانی کے کٹوتی سے استثنیٰ بھی حاصل ہے لیکن اس فارمولے پر سندھ حکومت کوئی عمل درآمد نہیں کر رہی ہے۔‘‘

تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کم بارشوں سے بھی دریاؤں میں پانی کی سطح گر رہی ہے۔ چند روز قبل بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ کو اس تنازعے پر بات چیت کرنے کے لیے ٹیلی فونک رابطہ کیا گیا تھا۔

اگرچہ وزیراعلیٰ سندھ نے معاملے کے حل کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن صوبائی محکمہ آبپاشی کے حکام کہتے ہیں کہ اس حوالے سے تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ کوئٹہ میں مقیم آبی امور کے ماہرندیم خان کہتے ہیں کہ بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے حکومت کوئی حکمت عملی مرتب نہیں کر رہی۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''حال ہی میں محکمہ موسمیات نے جو اعدادوشمار جاری کیے وہ بہت تشویشناک ہیں۔ بلوچستان جس تیزی سے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہورہا ہے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ طویل عرصے سے ملک کے دریائی سسٹم میں پانی کی کمی کی نشاندہی کی جاتی رہی۔ اگر بلوچستان میں بھی پانی ذخیرہ کرنے کے لیے مطلوبہ ڈیلے ایکشن ڈیمز بنائے جاتے تو اس صورتحال کے اتنے منفی اثرات مرتب نہ ہوتے۔‘‘

ندیم خان نے مزید کہا کہ پاکستان میں پانی تقسیم کرنے کے نظام میں دور حاضرکے تقاضوں کے مطابق کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا، ''پانی کے تنازعے کا مستقل حل تلاش کیے بغیر یہ معاملات بہتر نہیں ہوسکتے۔ بلوچستان کا سندھ کے ساتھ پانی کی تقسیم کا تنازعہ کافی عرصے سے چلتا آ رہا ہے۔ اس سال جون کے آغاز سے ہی یہ معاملہ اس لیے بگڑ گیا کیونکہ ڈیموں سے پانی کا اخراج بھی کم ہوچکا ہے۔ سندھ اور پنجاب کے درمیان بھی ایسا ہی تنازعہ موجود ہے۔ بلوچستان میں محکمہ آبپاسی کے حکام نے ماضی میں اس اہم نوعیت کے مسئلے کو نظرانداز کیے رکھا، یہی وجہ ہے کہ اب حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘

بلوچستان میں پانی کی کمی کے باعث نصیراباد ڈویژن میں گندم کے بعد اب چاول کی فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

پاکستان میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کےادارے 'انڈس ریور سسٹم اتھارٹی(ارسا)‘ کے معاہدے کے تحت ربیع اورخریف کے فصلوں کے لیے چاروں صوبوں کو فارمولے کے تحت پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ارسا معاہدے میں بلوچستان کےلیے پانی کا جو کوٹہ مقرر کیا گیا وہ تین اعشاریہ ستاسی ملین ایکڑ فٹ ہے۔

سندھ اور بلوچستان  کے مابین آبی تنازعہ کے حل کے لیے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے حال ہی میں ایک خصوصی کمیٹی بھی قائم کی ہے۔ خصوصی کمیٹی کے ممبران نے گزشتہ دنوں سندھ اور بلوچستان کے متعلقہ حکام سے ملاقات کر کے ان کے بیانات بھی ریکارڈ کیے تھے۔

دوسری جانب ارسا نے بلوچستان کے کچھی کینال منصوبے کے لیے این او سی بھی جاری کر دیا. زمیندار ایکش کمیٹی بلوچستان کے رہنما خدائیداد مینگل کہتے ہیں کہ بلوچستان میں پانی کے بحران کی ایک بڑی وجہ مطلوبہ ڈیمز کی عدم دستیابی بھی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''میرے خیال ہے کہ یہ موقف بالکل درست ہے کہ سندھ نے بلوچستان کو کبھی اپنے حصے کا مکمل پانی فراہم نہیں کیا ہے۔ اس صورتحال کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں سیاسی اختلافات کی وجہ سے بھی یہ بحران بڑھا ہے۔ ہر دور میں یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومت ڈیمز کی تعمیر کے لیے بجٹ میں خطیررقم تو مختص کردیتی ہے لیکن ڈیمز نہیں بن پاتے۔ جب پانی ذخیرہ نہیں ہوگا تو یہ صورتحال بہتر کس طرح بنائی جاسکتی ہے‘‘

خدائیداد مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں طویل خشک سالی سے صوبے کا زرعی شعبہ دن بدن تباہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''ہمارے صوبے میں 80 فیصد سے زائد لوگوں کا زریعہ معاش زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔ گزشتہ دس سالوں سے صوبہ مسلسل خشک سالی کا شکار چلتا آرہا ہے۔ صوبے کے شمال مشرقی اور جنوب مغربی حصوں میں اربوں روپے مالیت کے پھلوں کے باغات بھی تباہ ہوچکے ہیں۔ پانی کی قلت کے باعث زیر زمین پانی کی سطح بھی دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔‘‘

دنیا میں خشک سالی کے تباہ کن اثرات

03:08

This browser does not support the video element.

ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بلوچستان میں پانی کی قلت کے دیرینہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے تو صوبے میں غذائی قلت کا معاملہ بھی شدت اختیار کر جائے گا۔ صوبے میں پانی کی قلت کے باعث رواں سال گندم کی پیداوار کو بھی شدید نقصان کا سامنا ہے۔ بلوچستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے مقامی رہنما شہریارخان کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت کی بے حسی کی وجہ سے فلور ملز گندم کے مطلوبہ کوٹے سے محروم ہیں۔

ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''اس وقت یہاں ایک بحرانی صورتحال ہے جس سے حکومت نمٹنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا رہی۔ رواں سال یہاں کسی فلورمل کو گندم کا مطلوبہ کوٹہ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران آٹے کی سو کلو گرام کی ایک بوری کی قیمت میں 18سو روپے اضافہ ہو چکا ہے۔ فلور ملز کی بندش سے اوپن مارکیٹ میں بھی آٹے کا اسٹاک ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر اس صورتحال میں بہتری نا آ سکی تو صوبے میں آٹے کا شدید بحران جنم لے سکتا ہے۔‘‘

تین یوم قبل کوئٹہ میں جاری کیے گئے صوبائی حکومت کے ایک اعلامیے میں حکومت سندھ سے بلوچستان کو اس کے حصے کا مکمل پانی فراہم کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ اعلامیے میں واضح کیا گیا تھا کہ بلوچستان کو اگر مقررہ فارمولے کے تحت پانی فراہم نہ کیا گیا تو صوبائی حکومت ارسا اجلاس میں احتجاجاﹰ شرکت نہیں کرے گی۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں