بلوچستان: بم دھماکے میں تین افراد ہلاک
3 مئی 2024![فائل فوٹو](https://static.dw.com/image/68191709_800.webp)
حملے سے چند لمحے قبل کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک موٹر سائیکل سوار گاڑی کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہے اور گاڑی کے دروازے کے ساتھ کچھ جوڑتا ہے اور پھر وہاں سے چلا جاتا ہے۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد گاڑی میں دھماکا ہو جاتا ہے۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کو صوبہ سندھ کے بندرگاہی شہر کراچی سے ملانے والی مرکزی شاہراہ پر ضلع خضدار کی حدود میں ہونے والے اس دھماکے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی گروپ یا تنظیم کی جانب سے قبول نہیں کی گئی ہے۔
ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے دوران خضدار میں یہ دوسرا حملہ ہے۔
ضلعی پولیس افسر غلام مصطفی رند نے بتایا کہ جمعہ کی سہ پہر ہونے والے دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں ایک معروف صحافی بھی شامل ہے۔ محمد صدیق مینگل خضدار پریس کلب کے صدر اور مذہبی جماعت جے یو آئی کے رکن تھے۔ رند نے بتایا کہ جب دیسی ساختہ بم دھماکے سے پھٹا تو ان کی گاڑی چمروک چوک پر پہنچی تھی۔
گزشتہ سال مینگل نے پاکستانی انگریزی اخبار ڈان کو خضدار میں کام کرنے کے خطرات کے بارے میں بتایا تھا، جسے 'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے صحافیوں کے لیے دس خطرناک ترین شہروں میں سے ایک قرار دیا تھا۔
سن 2014 میں صحافیوں کو دھمکیاں دیے جانے اور حملوں کے سبب انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خضدار کو 'صحافیوں کا قبرستان‘ قرار دیا تھا۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ آج تین مئی کے روز آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ محسن نقوی سمیت ملک بھر کے اہم سیاسی رہنماؤں اور صحافتی تنظیموں نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔
جمعہ کے روز بلوچ لبریشن آرمی نے بلوچستان کے کوئلے سے مالا مال علاقے دکی میں بارودی سرنگ کے دوہرے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں ایک شخص ہلاک اور 18 دیگر زخمی ہو گئے تھے۔
ش ح، ع ت (اے پی، سوشل میڈیا)