1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان حکومت نے انسانی حقوق کمیشن کے الزامات ردّ کر دیے

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ13 اکتوبر 2014

بلوچستان کی حکومت نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے یہ الزام مسترد کر دیا ہے کہ بعض حکومتی ادارے صوبے میں بلوچ مسلح بغاوت کو ختم کرنے کے لیے مذہبی شدت پسندی کو پروان چڑھا رہے ہیں۔

تصویر: DW/A. Kakar

انسانی حقوق کمیشن نے کوئٹہ میں جاری کی گئی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ماضی کی طرح موجودہ حکومت بھی صوبےمیں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی روک تھام میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ ایچ آر سی پی نے مسئلہ بلوچستان کے حل کے لیے کئی نکات پر مبنی سفارشات بھی مرتب کی ہیں جو وفاقی حکومت کورواں ہفتے پیش کی جائیں گی۔

انسانی حقوق کمیشن کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے جائزے پر مبنی ایک رپورٹ میں پاکستان کی اسٹیبشلمنٹ پر بلوچ قوم پرستوں اورعلیحدگی پسندوں کی تحریک کو کچلنے کے حوالے سے کئی امور کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ رپورٹ میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں ریاستی ادارے ایک منظم منصوبے کے تحت مبینہ طور پر فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دے رہی ہیں تاکہ بلوچ قوم پرستوں کی سیکولر تحریک کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ایچ آر سی پی کی چیئر پرسن زہرہ یو سف کے بقول ان کی اس رپورٹ میں صوبائی حکومت کی کارکردگی پر بھی کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں اور اس امرپر تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ حکومت صوبے میں لاپتہ سیاسی کارکنوں کی بازیابی اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کے مسئلےکے حل کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا مزید کہنا تھا: ’’ہمیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر شبہ ہے کہ وہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی تحریک جو سیکولر ہے، کو مذہبی انتہا پسند گروپوں کے ذریعے کاؤنٹر کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ان کے لیے اس صورتحال میں جگہ بھی پیدا کی جارہی ہے۔ بہت تیزی سے کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو ا ہے ۔ اگراس تمام صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہو تا ہے کہ حکومت اس مسئلے کے حل کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔‘‘

بلوچستان میں شدت پسندی کے خلاف مظاہرے بھی دیکھے جا چکے ہیںتصویر: DW/A. Kakar

دوسری طرف انسانی حقوق کمیشن کی اس رپورٹ کو صوبائی حکومت نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ ڈویچے ویلے سے گفتگو کے دوران صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے حکومتی مؤقف کااحاطہ کچھ یوں کیا: ’’یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ قوم پرستوں کوکمزور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ وہ تو اکثر صوبائی حکومت کا حصہ ہیں۔ ریاست کا رویہ سب کے ساتھ ایک جیسا ہے۔ ہمیں جہاں بھی ایسی شکایت ملتی ہے جہاں حکومت کی رٹ چیلنج ہوتی ہے، وہاں کاروائی کی جاتی ہے۔ صوبائی حکومت تمام معاملات کوافہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس میں پیش رفت بھی ہوئی ہے۔‘‘

معروف بلوچ دانشور حکیم بلوچ نے بھی اس صورتحال کو تشویشناک قرار دیا ہے۔ ان کے بقول ان معاملات میں خرابی دونوں اطراف سے پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ماورائے آئین قتل ہو رہے ہیں، اجتماعی قبریں مل رہی ہیں۔ اس کا حل یہ نہیں ہے کہ لوگوں کی سوچوں پر پابندی لگائی جائے ۔ ہمارے جو لیڈر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ تاریخ کو مسخ کر نے کی کوشش کر رہے ہیں، اسی وجہ سے معاملات بگڑتے جا رہے ہیں۔‘‘

انسانی حقوق کی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بلوچستان میں مذہبی شدت پسندی سے متاثرہ اقلیتی فرقوں کی نقل مکانی اور دیگر مسائل کا بھی احاطہ کیا ہے اور حکومت کو ان معاملات کے حل کے لیے تجازیز پیش کی ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں