1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

بلوچ علیحدگی پسندوں کا ہتھیار ڈالنا امن کے لیے کتنا اہم؟

21 دسمبر 2023

ناقدین کے مطابق عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے سرکاری دعوے لاپتہ افراد کے مسئلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ بلوچوں کا احساس محرومی دور کرے۔

Pakistan Quetta Kapitulation Kämpfer der verbotenen Baloch Liberation Army
تصویر: Jamal Tarakai/epa/dpa/picture alliance

بلوچستان میں مبینہ بلوچ عسکریت پسندوں کے ہتھیار ڈالنے کے حالیہ واقعے کو سرکاری طور پر ایک اہم پیشرفت قراردیا جارہا ہے تاہم حکومتی دعووں کے برعکس عسکریت پسندی اور سلامتی کے امور پر دسترس رکھنے والے بعض مبصرین نے اسے ایک متنازعہ اور غیراہم  واقعہ قرار دیا ہے ۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران صوبے میں بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ مفاہمت کے لیے ہونے والی تمام تر حکومتی کوششیں تاحال بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں ۔ بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں پاکستانی ریاستی اداروں کو صوبے میں انسانی حقوق کی سنگیں خلاف ورزیوں میں ملوث قرار دیتی  ہیں۔

بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں طویل عرصے سے بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر حملے کرتی آئی ہیںتصویر: MOHAMMAD ASLAM/AFP


بدھ 20 دسمبر کو کوئٹہ میں  اپنے ستر ساتھیوں کے ہمراہ ہتھیار ڈالنے والے کالعدم تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) کے کمانڈر سرفراز بنگلزئی نے دعویٰ کیا کہ بلوچ مسلح تنظیموں سے وابستہ دیگر کئی لوگ بھی ہتھیار پھینک کرقومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اس سے قبل بی این اے کے سربراہ  گلزار اما م شمبے کو گزشتہ سال سات اپریل کو پاکستانی خفیہ اداروں نے مبینہ طور پر ایک کارروائی کے دوران گرفتار کیا تھا۔ گلزار امام 11 جنوری 2022 کو بی این اے کے سربراہ منتخب ہوئے تھے۔

سرفراز بنگلزئی عرف مرید بلوچ کون ہے؟

بی این اے کے کمانڈر سرفراز بنگلزئی بلوچستان کے محکمہ خوراک کے سابق ملازم ہیں اور وہ  2009 میں بلوچ مسلح تحریک کا حصہ بنے تھے۔ 55 سالہ بنگلزئی گزشتہ ایک دہائی سے صوبے میں حکومت کے خلاف جاری لڑائی میں دو کالعدم تنظیموں بلوچ یونائیٹڈ آرمی اور بلوچ نیشنلسٹ آرمی نامی تنظیم کا حصہ رہ چکے ہیں۔  ضلع مستونگ سے تعلق رکھنے والے سرفراز بنگلزئی کالعدم بلوچ یونائٹڈ آرمی میں ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں ۔ یو بی اے میں سرفراز کا کوڈ نام مرید بلوچ تھا ۔ جس کے تحت وہ صوبے کے مختلف حصوں میں ہونے والے درجنوں دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری کرتے رہے ہیں۔
بی این اے کے سابق سربراہ  گلزار امام شمبے کی گرفتاری کے بعد رواں سال  اپریل میں سرفراز بنگلزئی کو تنظیم نے نئے سربراہ کے طور پر منتخب کیا تھا۔ سرفراز کے دو بیٹے بھی علیحدگی کی تحریک میں لڑتے ہوئے ہلاک ہوچکے ہیں ۔ بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کے خلا ف ہونے والی کارروائیوں میں تیز ی کے بعد چار بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے اتحاد کرکے بلوچ راجی اجوئی سنگر ) براس) کے نام سے نئی تنظیم کے قیام کا اعلان کیا تھا ۔
بلوچ لبریشن آرمی ، بلوچ لبریشن فرنٹ ، بلوچ ریپبلکن آرمی اور بلوچ ریپبلکن گارڈز پر مشتمل ، براس نامی تنظیم بلوچستان سمیت ملک بھر میں چینی انجینئرز اور دیگر اہم شخصیات سمیت قومی تنصیبات پر ہونے والے کئی بڑے حملوں کی ذمہ داریاں تسلسل کے ساتھ قبول کرتی رہی ہے ۔ بلوچستان میں علیحدگی کی مسلح تحریک میں خودکش حملوں کا آغاز بھی براس نے شروع کیا تھا۔

علیحدگی پسندوں کے قومی دھارے میں شامل ہونے کے حکومتی دعوے

پاکستانی حکام گزشتہ ایک دہائی کے دوران بلوچستان میں تین ہزار سے ذائدبلوچ عسکریت پسندوں کے قومی دھار ے میں شامل ہونے کے اعلانات کرچکی ہے۔ ماضی میں 18 اپریل 2016 میں ضلع قلات کے علاقے میں ایک سو جبکہ اسی سال 11 جولائی کو کوئٹہ میں دو سو عسکریت پسندوں نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کااعلان کیا تھا۔
اسی طرح 12 سمتبر 2017 کو 320 جبکہ اسی سال نو دسمبر کو صوبے میں 313 اور نومبر کے مہینے میں 350 مبینہ بلوچ عسکریت پسند بھی مختلف حکومتی تقاریب میں ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوئے تھے ۔
بلوچستان کی سابقہ حکومتیں شورش زدہ تربت ، کاہان ، خضدار ، خاران ، نوشکی ، ڈیرہ بگٹی اور دیگر علاقو ں میں بھی سینکڑوں افراد کی قومی دھارے میں شامل ہونے کے علانات کرچکی ہیں ۔

ہتھیار ڈالنے والے علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ وہ قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیںتصویر: Ghani Kakar/DW


بلوچ مسلح تحریک سے علیحدہ ہونے والے ان افراد میں کئی ایسے افراد بھی شامل ہیں، جنہیں حکومتی عمل داری تسلیم کرنے کے بعد مخالفین مختلف حملوں میں قتل کرچکے ہیں۔

لانگ مارچ سے توجہ ہٹانے کی کوشش

بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جاری احتجاجی تحریک میں شامل  سہیل بلوچ کہتے ہیں کہ حکومتی ادارے صوبے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں روکنے کے بجائے طاقت کے بل بوتے پر عوامی جدوجہد کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ڈی ڈبلیوسے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا، " بلوچستان میں آج جو مسلح تحریک جاری ہے اس کےپس منظر میں جانا بہت ضروری ہے ۔ صرف دعووں سے حقائق مسخ نہیں کیے جاسکتے ۔ صوبے میں ریاستی پالیسیوں کے خلاف ہر طبقہ سراپا احتجاج ہے ۔

بلوچ سیاسی کارکنوں کو جبری طور پر لاپتہ کرکے قتل کیا جارہا ہے ۔ انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں انہیں کاونٹر کرنے کے لیے مختلف حربوں کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔"
سہیل بلوچ کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں کے قومی دھارے میں شامل ہونے کا حالیہ حکومتی دعویٰ لاپتہ افراد کی تحریک سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے جو کہ کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ انہوں نے مذید کہا، " موجوہ دورہ حکومت میں صوبے میں بلوچ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ۔ انصاف کے حصول کے لئے آواز بلند کرنے والے افراد کو غدار یا ملک دشمن قرار دے گرفتار کیا جا رہا ہے ۔ لوگوں کو ائین کے مطابق بنیادی حقوق بھی فراہم نہیں کیے جا رہے ہیں ۔ "

بلوچستان میں مفاہمتی عمل کی کوششیں اور اہداف

کالعدم تنظیموں سے وابستہ افراد کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے پاکستانی حکومت نے 2015 میں بلوچستان پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ اس پیکیج کے تحت ہتھیار ڈالنے والے افراد کی بحالی کے لیے کروڑوں روپے کی مالی امداد کے دعوے میں ماضی میں سامنے آتے رہے ہیں ۔  موجودہ نگران حکومت نے چند یوم قبل ایک قبائلی جرگےکا کوئٹہ میں انعقاد کیا تھا۔ اس جرگے کے شرکاء نے ریاست کو ناراض بلوچ قائدین کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔
بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ علی مردان ڈومکی نے جرگے سے خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ حکومت مقاہمتی عمل کے لیے بھرپور کردار ادا کرے گی ۔ تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ نگران حکومت اتنی باآختیار نہیں کہ ناراض بلوچ قائدین کے مطالبات پر غور کر سکے۔
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بھی ان بلوچ قائدین میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے دور حکومت میں بلوچ قائدین سے قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے رابطہ کیا تھا۔

علحیدگی پسند بلوچ کمانڈر علی گل بلوچ نے سن دوہزار سولہ میں ہتھیار ڈالے تھےتصویر: Ghani Kakar/DW


انسانی حقو ق کی سرگرم کارکن حمید ہ بلوچ کہتی ہیں بلوچستان کے دیرینہ معماملات پر جب تک زمینی حقائق کی بنیاد پر توجہ نہیں دی جائے گی ، حالات میں مطلوبہ بہتری سامنے نہیں آسکتی۔ انہوں نے کہا، "جب ڈاکٹر مالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان تھے تب صوبے میں قومی مفاہمت کی پالیسی اختیار کی گئی تھی ۔ ناراض بلوچ قائدین کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے کئی نتیجہ خیز اقدامات سامنےآئے تھے ۔ اگر ان کوششوں کو جاری رکھا جاتا اور ناراض قائدین کے مطالبات پر سنجیدگی سے توجیہ دی جاتی تو شاید آج حالات اس قدر گھمبیر نہ ہوتے ۔"
حمیدہ بلوچ کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت نے روز اول سے بلوچستان کے مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی ہے ۔
انہوں نے کہا، ''بلوچستان میں حقوق کے لیے جو آواز بلند کی جا رہی ہے اسے طاقت کے بل بوتے پر کچلنے کے بجائے حکومت کو بصیرت کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔صوبے میں شورش کی بنیادی وجوہات وہ نا انصافیاں ہیں جو کہ رہاستی اداروں کی جانب سے کی جا رہی ہیں ۔ اگر صوبے کے ساحل اور وسائل کے حوالے سے سامنے آنے والے تحفظات اور دیگر خدشات کو دور کیا جائے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں ۔ میرے خیال میں ناراض بلوچ قائدین کو مذاکرات کی دعوت دینا اور ان کے خدشات کو سننا بہت ضروری ہے۔‘‘
واضح رہے کہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے خودساختہ جلاوطن بلوچ قائدین سے بھی کئی بار حکومتی سطح پر رابطے کیے گئے ہیں ۔ ان رابطوں کے نتیجے میں کچھ عرصہ قبل نواب خیر بخش مری مرحوم کے صاحبزادے نوبزادہ گزین مری خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے واپس بلوچستان منتقل ہوئے تھے ۔

بلوچستان کے ’عوام کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا گیا‘

06:13

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں