عید میلاد النبی کے جلوس پر حملے میں کم ازکم 52 افراد ہلاک
29 ستمبر 2023صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے کے نتیجے میں کم ازکم 52 افراد ہلاک جبکہ پچاس سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے اس حادثے پر تین روز ہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔اس خودکش حملے کی ذمہ داری اب تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔ اس شورش زدہ ضلع میں ہونے والے اکثر دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری ماضی میں شدت پسند تنظیم داعش قبول کرتی رہی ہے۔نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اس دھماکے کو "انتہائی گھناؤنا فعل" قرار دیا۔
خیال رہے کہ نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکٹر اور وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا تعلق بھی صوبہ بلوچستان سے ہے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب نگران وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک میں آئندہ سال جنوری میں ہونے والے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
مستونگ میں تعینات ایک سینئیر سکیورٹی اہلکار جاوید بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ، "اس وقت تحقیقات کاسلسلہ جاری ہے اور شواہد اکھٹے کیے جارہے ہیں۔ دھماکے میں انتہائی شدت کا دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا، اسی لیے جانی نقصان زیادہ ہوا ہے۔ حملے میں ہلاک ہونے والے اکثر افراد مقامی شہری ہیں جو کہ مختلف قریبی دیہاتوں سے جلوس میں شرکت کے لیے مستونگ پہنچے تھے۔‘‘
تحقیقات جاری
جاوید بلوچ کا کہنا تھا کہ خود کش حملہ آور کی باقیات تحقیقاتی ٹیم نے تحویل میں لے لی ہیں تاہم ابھی تک اس حملہ آور کی شناخت ممکن نہیں ہوئی ہے ۔ انہوں نے بتایا، " بلوچستان میں یہ دہشت گردی کی ایک تازہ لہر ہے جو کہ شاید اس لیے سامنے آئی ہے کیونکہ شدت پسند گروپوں کے خلاف صوبے بھر میں آپریشن تیزکردیا گیا ہے۔ چند دن قبل مستونگ میں دہشت گرد تنظیم داعش کے ایک اہم رکن غلام دین عرف شعیب کو بھی ایک مقابلے میں سکیورٹی فورسز نے ہلاک کیا تھا ۔ "
جاوید بلوش کا مذید کہنا تھا کہ عسکریت پسند تنظیمیں صوبے میں ایسے اہداف کو نشانہ بنارہی ہیں، جن سے مذہبی اور لسانی منافرت پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔ ان کے بقول، "بلوچستان کی مذہبی انتہا پسند کالعدم تنظیمیں اکثر اوقات نام بدل بدل کر بھی حملے کرتی رہی ہیں اس لیے یہ ممکن ہے کہ مستونگ کا تازہ حملہ بھی ایسے ہی حملوں کا ایک تسلسل ہو۔"
مستونگ میں خودکش حملوں کی تازہ لہر
رواں ماہ مستونگ میں ہونے والا یہ دوسرا خودکش حملہ ہے۔ قبل ازیں، 14 ستمبر کو مستونگ کے نواحی علاقے کھڈکوچہ کے قریب پاکستان کے سابق حکمران اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ترجمان حافظ حمد اللہ کے قافلے پر بھی خود کش حملہ کیا گیا تھا ۔ اس حملے میں حافظ حمد اللہ سمیت 11 افراد شدید زخمی ہوئے تھے۔
اس سےقبل 13 مئی 2017 کو مستونگ ہی کے علاقے میں سینیٹ کے سابق ڈپٹی چئیرمین مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر بھی خودکش حملہ ہوا تھا، جس میں 25 افراد ہلاک جبکہ 40 سے زائد زخمی ہوئے تھے ۔
کیا بلوچستان میں داعش کا اثرورسوخ پھر بڑھ رہا ہے؟
سکیورٹی امور کے سینئرتجزیہ کار ڈاکٹر راشد احمد کہتے ہیں کہ بلوچستان سمیت ملک کے دیگر قبائلی علاقوں میں حالیہ شورش کی تمام کڑیاں آپس میں ملتی ہیں ۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "اس تمام صورتحال کو خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہاں عسکریت پسندی کو جس منظم انداز میں ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے مطلوبہ اقدامات شاید اب بھی ناکافی ہیں ۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''بلوچستان پہلے ہی اس فالٹ لائن پر ہے، جہاں بیرونی مداخلت کی اطلاعات کی حکومتی سطح پر کئی بار تصدیق کی گئی ہے۔ اس ضمن میں حکومت کی، جو پالیسی ہے اس کا از سرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جب تک زمینی حقائق کے مطابق اقدامات نہیں کیے جاتے یہ صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی۔"
ڈاکٹر راشد کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں شدت پسند تنظیموں کے اثرو رسوخ کو ختم کرنے کے لیے حکومتی اداروں کو صوبے کی سیاسی اور قبائلی قیاد ت کے ساتھ بیٹھ کر حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔
انہوں نے مذید کہا، " بلوچستان کے سیاسی حالات ملک کے دیگر حصوں سے کافی مختلف ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ عسکریت پسند تنظیمیں بشمول مذہبی انتہاپسند گروہ اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لیےحملوں میں تیزی لا رہی ہیں ۔ مستونگ بلوچستان کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں داعش کا اثر ورسوخ بہت زیادہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان وجوہات کا جائزہ لیا جائے جن کی وجہ سے تمام تر کوششو ں کے باوجود عسکریت پسندی میں کوئی کمی واقع نہیں ہو رہی ہے۔"
واضح رہے کہ بلوچستان میں پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے مختلف کارروائیوں کے دوران داعش خراسان نامی تنظیم کے کئی اہم ارکان بھی ہلاک کیے ہیں۔ داعش کے روپوش عسکریت پسندوں کی گرفتار ی کے لیے فوجی دستوں نے کچھ عرصہ قبل مستونگ کے ایک پہاڑی علاقے میں آپریشن کیا تھا۔
کوئٹہ سے مئی 2017ء میں دو چینی اساتذہ کو بھی داعش کے شدت پسندوں نے اغواء کیا تھا، ان مغویوں کی لاشیں ایک ماہ بعد مستونگ سے برآمد ہوئی تھیں ۔
سکیورٹی فورسزاور طالبان میں جھڑپیں
اسی دوران پاکستانی فوج نے پاک افغان سرحد پر واقعے بلوچستان کے علاقے ژوب سمبازہ میں پاکستانی طالبان کے ساتھ جھڑپ میں چار سیکیورٹی اہلکار اور تین شدت پسندوں کے مارے جانے کی اطلاع دی ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق عسکریت پسندوں اور فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ اس وقت ہوا جب حملہ اور افغانستان کی حدود سے پاکستان میں داخل ہورہے تھے۔