بلوچستان کے سول اور فوجی رہنماؤں نے عالمی کمپنیوں سے گوادر بندرگاہ اور معدنیات سے مالا مال اس صوبے میں کان کنی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صوبہ خطے میں خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے۔
تصویر: Path Finder/J. Javed
اشتہار
بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال اور کوئٹہ کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر بلوچستان میں مستقبل کے اقتصادی امکانات پر بات کی ہے۔ سوئٹرزلینڈ کے شہر داووس میں بدھ کی شام پاکستانی رہنماؤں نے سالانہ کانفرنس کے حاشیے میں گفتگو کرتے ہوئے سی پیک منصوبے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
ایکسپریس ٹریبون کی رپورٹ کے مطابق جنرل عاصم سلیم باجوہ کا اس موقع پر کہنا تھا، ’’ جیو پولیٹیکل صورتحال میں بہتری کی وجہ سے اب توجہ جیو اکنامکس کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ گوادر کو براستہ افغانستان اور وسطی ایشیا روس کے ساتھ جوڑا جائے گا۔‘‘
پاکستانی حکام نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی سرمایہ کاروں کو بلوچستان میں حالیہ چند برسوں سے ہونے والے ترقیاتی کاموں سے بھی آگاہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ وہ آئندہ چند برسوں میں یہ صوبہ کس طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
جنرل عاصم سلیم باجوہ نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ اس صوبے میں ہونے والی دہشت گردی سرحد پار سے کرائی جاتی ہے، ’’بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات انتہائی کم ہو گئے ہیں۔ علیحدگی پسندی کی تحریک تقریبا ختم ہو چکی ہے، چند ایک واقعات تھے، جو گزشتہ برس ہوئے تھے۔‘‘
دوسری جانب بلوچستان کی علیحدگی پسند تنطیموں کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ اگرچہ چین یہاں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کر رہا ہے مگر بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کا کہنا ہے کہ سی پیک بلوچ قوم کو مزید ’تاریکی میں دھکیلنے اور انہیں اقلیت میں تبدیل کرنے‘ کا منصوبہ ہے جسے وہ کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
ماضی میں بلوچ مزاحمتی تنظیمیں شورش زدہ علاقوں تربت، گوادر،مشکے، اوران، خضدار، بولان اور ڈیرہ بگٹی وغیرہ میں تعمیراتی کاموں اور قومی شاہراہوں کی مرمت میں مصروف مزدوروں کو حملوں کا نشانہ بنا چکی ہیں۔
ا ا / ع ح
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں
بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار دنیا کے بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ اس کوئلہ کا ایک ٹن اوپن مارکیٹ میں 10 سے 11 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ
بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقےمیں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کم اجرت
18 سالہ سید محمد مچھ کےعلاقے مارواڑ میں گزشتہ دو سالوں سے ٹرکوں میں کو ئلے کی لوڈ نگ کا کام کرتا ہے، جس سے روزانہ اسے 3 سو سے پانچ سو روپے تک مزدوری مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کان کن
بلوچستان کے علا قے مارواڑ،سورینج، ڈیگاری ،سنجدی اور چمالانگ کے کوئلہ کانوں میں سوات، کوہستان اور خیبر پختونخواء سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کانوں میں حادثات سے درجنوں کان کن ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
سہولیات کا فقدان
بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث بلوچستان میں کان کنی سے وابستہ افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے حکومتی سطح پرابھی تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ مائننگ کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی لیے ان کانوں میں حادثات کے باعث اکثر اوقات کانکن اندر پھنس جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیرین زادہ
55 سالہ شیرین زادہ سوات کے پہاڑی ضلع شانگلہ کا رہائشی ہے، جو گزشتہ 25 سالوں سے بلوچستان میں کان کنی کا کام کر رہا ہے۔ شیرین زادہ کہتے ہیں کہ کوئلے کی کانوں میں مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کی ترسیل
مزدور مجموعی طور ہر کوئلے کے ایک ٹرک کی لوڈ نگ کا معاوضہ 3 سے 4 ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں۔ یہ رقم بعد میں آپس میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ بعد میں یہ کوئلہ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ٹرک میں 28 سے 34 ٹن کوئلے گنجائش ہوتی ہے۔