1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمپاکستان

بلوچستان میں دہشت گردانہ حملے، نو مزدوروں سمیت گیارہ ہلاک

13 اپریل 2024

پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے جمعہ کی شب ضلع نوشکی میں ایک مسافر بس کو روک کر اس میں سوار لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مزدوروں کو اغوا کر کے بعد میں ہلاک کردیا۔

Bombenanschlag in Quetta Pakistan
یہ پہلا موقع نہیں کہ بلوچستان میں غیر مقامی مقامی خصوصاﹰ پنجابی مزدوروں کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا ہو، اس سے پہلے بھی کئی بار اس طرح کے واقعات رونما ہو چکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

پاکستانی صوبے بلوچستان میں مسلح افراد کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مزدورں سمیت گیارہ افراد ہلاک ہو گئے۔ پولیس کے مطابق ان حملوں میں ملوث مشتبہ علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کی تلاش جاری ہے۔

صوبائی پولیس کے مطابق چھ مسلح افراد نے جمعہ کی شب ضلع نوشکی میں ایک مسافر بس کو روک کر اس میں سوار لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مزدوروں کو اغوا کر لیا۔

پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ ماہ گوادر بندرگاہ پر حملہ کرنے والے گیارہ بلوچ علیحدگی پسندوں کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ اس حملے میں دو فوجی بھی مارے گئے تھےتصویر: Xinhua/dpa/picture alliance

ایک سینئر مقامی پولیس افسر اللہ بخش نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان اغوا کیے گئے افراد کی لاشیں بعد میں ہائی وے سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر پائی گئیں، جنہیں انتہائی قریب سے فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔

بخش نے کہا کہ بعد میں انہی حملہ آوروں نے ایک صوبائی رکن پارلیمنٹ کی کار پر فائرنگ کی۔ حملے کے وقت قانون ساز گاڑی میں نہیں تھے لیکن گاڑی کھائی میں گرنے سے دو افراد ہلاک ہو گئے۔

نوشکی ضلعی انتظامیہ کے سینئر اہلکار حبیب اللہ موسیٰ خیل نے اے ایف پی کو بتایا، ’’پولیس اور نیم فوجی دستوں نے حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے علاقے میں تلاشی شروع کر دی ہے۔ لیکن حملہ آور اس بار علاقے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔‘‘

انہوں نے ہلاکتوں کی تعداد کی بھی تصدیق کی۔

بخش نے کہا کہ مسلح حملہ آوروں نے ''واضح طور پر بلوچ علیحدگی پسندوں کا طریقہ کار استعمال کیا اور اس بات کی تصدیق کے لیے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے کون تھا۔‘‘

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کا جائزہ لینے کے لیے گوادر کا دورہ کیا تھا، جہاں وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے ان کا استقبال کیاتصویر: Abdul Ghani Kakar

بلوچ علیحدگی پسندوں نے قدرتی وسائل کی فراوانی والے اور رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے لیکن غریب ترین صوبے بلوچستان میں کئی دہائیوں سےشورش برپا کر رکھی ہے۔ عسکریت پسند ملک کے دیگر حصوں سے صوبے کا رخ کرنے والے پنجابیوں اور سندھیوں کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔

 ساتھ ہی ساتھ وہ علاقے میں توانائی کے شعبے میں کام کرنے والی غیر ملکی فرموں کو بھی نشانہ بناتے رہے ہیں، جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ اس خطے کی دولت کو بانٹے بغیر اس کا استحصال کر رہی ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے اس حملے کو ''دہشت گردی کا واقعہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ''سہولت کاروں کو سزا دی جائے گی۔‘‘ گزشتہ سال اکتوبر میں مسلح افراد نے چھ پنجابی مزدوروں کو قتل کر دیا تھا، جو ایک نجی رہائش گاہ بنا رہے تھے۔

گزشتہ ماہ کے آخر میں آٹھ بلوچ عسکریت پسندوں کو اس وقت ہلاک کر دیا گیا تھا، جب انہوں نے گوادر بندرگاہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی، جسے خطے میں چین کی سرمایہ کاری کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے۔

فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اس حملے کو پسپا کرنے کے دوران دو پاکستانی فوجی مارے گئے تھے۔ اس شورش زدہ صوبے میں حکومتی سکیورٹی فورسز بلوچ علیحدگی پسندوں کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔ ان علیحدگی پسندوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی برادریوں کی جانب سے اپنے حقوق کے لیے مزاحمت کے بدلے میں ماورائے عدالت قتل اور گمشدگیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

 ش ر⁄ ع ت (اے ایف پی)

یتیم و مسکین ہوئے تو کیا؟ یہ بچے بھی جینے کے مستحق ہیں

03:55

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں