1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

بلوچستان میں سرحدی تجارت کی بندش کے خلاف زور پکڑتا احتجاج

18 ستمبر 2023

مقامی تاجروں اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کا کہنا کہ ایران کے ساتھ سرحدی تجارت کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن سے لاکھوں لوگوں کا روزگارمتاثر ہو رہا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کے مثبت اثرات برآمد ہو رہے ہیں۔

Iran  Grundstücke Protest Balochistan
تصویر: Abdul Ghani Kakar

 پاک ایران سرحد سے ملحقہ علاقوں میں تجارتی سرگرمیوں پر حالیہ پابندیوں کے خلاف  بلوچستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کی کال پر گزشتہ کئی دنوں  سے احتجاج جاری ہے۔ بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی نے سرحدی تجارت پر حکومتی پابندیوں کے خلاف اکیس ستمبر کو صوبے کے مختلف اضلاع  پرمشتمل مکران ریجن میں مکمل ہڑتال کا اعلان  بھی کر رکھا ہے۔

پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ  نے رواں ماہ یکم ستمبر کو اسمگلنگ روکنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور محکمہ کسٹمز کو خصوصی کارروائی کے احکامات جاری کیے تھے۔ حکام کے مطابق پاک ایران سرحد پر غیرقانونی نقل و حمل روکنے کی ایک بنیادی وجہ چینی، پیٹرولیم مصنوعات، یوریا، زرعی اجناس اور دیگر اشیا کی اسمگلنگ کا سدباب کرنا ہے۔

بلوچستان کے ضلع تربت میں پاک ایران سرحد پر قائم پاکستانی سرحدی چوکی تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

مقامی تاجروں کے خدشات  

ایرانی سرحد سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں حکومتی اقدامات کے باعث بے روزگار ہونے والے تاجروں میں تربت میں مقیم 45 سالہ خدا بخش بلوچ بھی شامل ہیں۔ خدا بخش نے الزام لگایا کہ اسمگلنگ روکنے کے نام پر بلوچ اکثریتی علاقوں میں حکومتی ادارروں نے لوٹ مار کا بازار گرم کررکھا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''دنیا کے کسی بھی ملک میں قانونی  تجارت  کی راہ میں حکومت رکاوٹ حائل نہیں کرتی ۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک  ہے، جہاں نگران حکومت بھی مینڈیٹ کے بغیر اپنے لوگوں کو سیاسی مقاصد کے لئے بے روزگارکر رہی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''پاک ایران سرحد پر کام کرنے والے  تمام تاجر اور ٹرانسپورٹرز مقامی انتظامیہ کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں اور انہیں باقاعدہ اجازت نامے بھی جاری کیےگئے ہیں۔ ہمیں بغیر کسی وجہ کے کاروبار سے روکا جا رہا ہے۔ ان بندشوں سے مقامی تاجر نانِ شبینہ کا محتاج ہوکر رہ گیا ہے۔‘‘

خدا بخش کا کہنا تھا کہ ایرانی تیل اور دیگر اشیا کی قانونی خریدو فروخت کو حکومت نے خلاف ضابطہ اسمگلنگ کا نام دیا ہے، جس سے سرحدی علاقوں کے لاکھوں لوگ متاثر ہورہے ہیں۔انہوں نے مذید کہا،''سرحدی تجارت کے خلاف موجودہ حکومت نے، جو اقدامات کیے ہیں، وہ غیرسنجیدہ اور زمینی حقائق سے متصادم ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا،  ''بلوچستان میں بے روزگاری کی شرح ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں پہلے ہی بہت زیادہ تھی حالیہ اقدامات نے ہمیں مذید مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ یہاں نہ کوئی فیکٹری ہے نہ ہی کوئی اور ذریعہ معاش۔ اکثر لوگ  ایران سے تجارتی اشیا یہاں درآمد کرکے کاروبار کرتے ہیں۔ تجارت نہیں ہوگی تو لوگوں کا گزر بسر کیسے ہوگا؟‘‘

پاکستانی حکام نے ایرانی پٹرول سمیت دیگر اشیا کی غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہےتصویر: Instagram.com/mototourist

سرحدی تجارت اور بلوچستان کی معاشی بدحالی

کوئٹہ میں مقیم سیاسی امور کے تجزیہ کار ندیم خان کہتے ہیں سرحدی تجارت کی بندش سے صوبے میں  پہلے سے موجود احساس محرومی میں مذید اضافے کا خدشہ ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''دیکھیں اسمگلنگ کے خلاف کارروائی پر تو کوئی قدغن نہیں لیکن حکومتی ادارے اس ضمن میں اختیارات سےجو تجاوز کرر ہے ہیں ان پر عوامی خدشات یقیناﹰ قابل غور ہیں۔‘‘

 اس وقت  بلوچستان میں احساس محرومی اور وسائل پر اختیارات کی جو بازگشت سامنے آرہی ہے اسے حکومت سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ عوام کو روزگار فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں اس وقت، جو شورش ہے اس کی ایک اہم وجہ بھی یہی غیر یقینی صورتحال ہے جسے بہتر بنانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔‘‘

ندیم خان  کا کہنا تھا کہ پاک ایران اور پاک افغان سرحد پر تجارتی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے ریاستی  اداروں کو بھی خصوصی کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ حکومتی اقدامات سے عوام کی معاشی زندگی متاثر نہ ہو۔

انہوں نے مذید کہا،" گوادر سے لے کر چمن تک لاکھوں لوگوں کا ذریعہ معاش، سرحدی تجارت سے وابستہ ہے۔ دو طرفہ تجارتی معاملات کی بہتری کے لیے ماضی میں کیے گئے کئی حکومتی دعوے بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اگر پالیسی ساز ادارے، اسمگلنگ روکنے کے لیے زمینی حقائق کے مطابق اقدامات کریں تو اس سے زرمبادلہ میں اضافے کے ساتھ ساتھ عوامی خدشات بھی دور ہوسکتے ہیں ۔"

بلوچستان کی عبوری صوبائی حکومت کہتی ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے اٹھائے  گئے اقدامات سے مطلوبہ اہداف حاصل ہو رہے ہیں اور اس کے مثبت اثرات سے عوام بھی مستفید ہوں گے۔

نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کا اپنا تعلق بھی صوبہ بلوچستان سے ہےتصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

حکومتی اقدامات اور معیشت کی بہتری کے دعوے

صوبائی محکمہ داخلہ کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ  پاک ایران سرحدی علاقوں میں  اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے جاری اقدامات کے دور رس نتائج سامنے آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا، '' ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی ہوئی ساکھ، ٹیکس چوری اور دیگر معاشی مسائل کی ایک بڑی وجہ اسمگلنگ ہے، جسے روکنے کے لیے اب حکومتی ادارے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ یہ موقف درست نہیں کہ حکومت عوام کو بے روزگار کر رہی ہے۔ ایسا بالکل نہیں، ان تمام اقدامات سے پہلے مرحلے میں عام لوگوں پرکچھ اثرات ضرور مرتب ہوئے لیکن وہ  عارضی ہیں۔‘‘

اس اہلکار کا کہنا تھا کہ جب اسمگلنگ ختم ہوگی توسرحدی تجارت واپس معمول پر آجائے گی  اور ان اقدامات کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے۔

انہوں نے مزید  کہا کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران اٹھائے گئے اقدامات  سے اسمگلنگ میں 40  فیصد سے ذائد کمی واقع  ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا،"  ایران اور افغانستان  کی سرحد سے ہونے والی اسمگلنگ سے قومی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ بلوچستان میں قومی شاہراہوں پر اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے خصوصی چیک پوائنٹس بھی قائم کیےگئے ہیں تاکہ اٹھائے گئے اقدامات کو مذید نتیجہ خیز بنایا جاسکے۔‘‘

ذرائع کے مطابق پاک ایران سرحدی  تجارت کی بندش ایران پر جاری امریکی معاشی پابندیوں کا تسلسل بھی ہوسکتا ہے ۔ امریکی معاشی پابندیوں کی وجہ سے دو سال قبل کوئٹہ میں ایرانی قونصل خانے کے مقامی بینک اکاونٹس بھی بند کردیے گئے تھے۔

پاکستان ایران سرحد پر تیل کی خطرناک اسمگلنگ

02:33

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں