1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں عسکریت پسندوں نے ہتھیار ڈالنا شروع کر دیے

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ24 جون 2015

پاکستانی صوبہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور صوبے کے مختلف علاقوں میں شدت پسند ہتھیار پھینک کر حکومتی عمل داری تسلیم کرنے لگے ہیں۔

Pakistan Quetta Belutschistan Armee Waffenübergabe
تصویر: DW/A.G.Kakar

گزشتہ تین ہفتوں کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں 18 اہم کمانڈروں سمیت مختلف کالعدم تنظیموں کے 160 شدت پسند ہتھیار ڈال کر حکومتی عمل داری تسلیم کر چکے ہیں۔ ان کمانڈروں میں حکومت مخالف بلوچ مسلح تنظیموں سمیت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے اہم کمانڈر بھی شامل ہیں، جو ماضی میں دہشت گردی کے درجنوں واقعات میں ملوث رہے ہیں۔

کالعدم بلوچ مسلح تنظیم یونائیٹڈ بلوچ آرمی یو بی اے کے دو سینیئر کمانڈروں شیکاری مری اور مدینہ مری نے بھی 40 دیگرعسکریت پسندوں سمیت کوئٹہ میں ہتھیار ڈال کر صوبے میں حکومت کی عمل داری تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یو بی اے ضلع مستونگ میں 22 مسافروں کے قتل سمیت بم دھماکوں اور دہشت گردی کے درجنوں دیگر واقعات میں ملوث رہی ہے۔

اسی طرح شورش زدہ ضلع خضدار، سبی، کوہلو، ڈیرہ بگٹی اور لورا لائی میں بھی کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ بی ایل اے، لشکر بلوچستان اور ٹی ٹی پی کے مجموعی طور پر 120 عسکریت پسند ہتھیار ڈال کر حکومت کی رِٹ تسلیم کر چکے ہیں۔ ان عسکریت پسندوں میں 16 ایسے اہم کمانڈر بھی شامل ہیں، جو ماضی میں مفرور تھے۔

ہتھیار ڈالنے والے ایک سابقہ مفرور کمانڈر پوادی مری کے بقول ماضی میں انہوں نے بلوچستان کے حقوق کے حصول کے لیے جس راستے کا انتخاب کیا تھا، اس پر چل کر انہیں مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ملا۔ اسی لیے انہوں نے یہ راستہ ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پوادی مری نے کہا، ’’ہمیں یہ احساس ہوا ہے کہ حقوق کے حصول کا صحیح راستہ پر امن جدوجہد ہے۔ ہتھیار اٹھا کر ہم نے اپنے لوگوں اور علاقے کا نقصان کیا۔ اگر ہمارا اختیار کیا گیا راستہ غلط نہ ہوتا تو ان 20 سالوں کی مسلح جدوجہد میں ہمیں کوئی نہ کوئی فائدہ تو ضرور پہنچتا مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ مجھے اپنے کیے پر بہت افسوس ہے اور اس بات پر افسردہ ہوں کہ میری وجہ سے کئی لوگوں کو نقصان پہنچا اور میرے خاندان کے لوگ بھی تباہی سے دوچار ہوئے۔‘‘ پوادی مری کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں عسکریت پسندی میں جو بھی لوگ ملوث ہیں، انہیں ورغلایا گیا ہے۔ ’’بعض لوگ انہیں غلط راستے پر ڈال کر اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘

پوادی مری کے بقول، ’’ہمارے لوگ بنیادی طور پر اپنی جدوجہد کے اصلی رخ سے آگاہ نہیں ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف مسلح جدوجہد سے ہی وہ اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں۔ تصویر کا حقیقی رخ جو مجھ پر اور میرے ساتھیوں پر عیاں ہوا ہے، وہ کسی بھی طور بلوچ عوام کے لیے بہتر ثابت نہیں ہو سکتا۔ بلوچ قوم ترقی چاہتی ہے اور یہاں لوگ اپنے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں۔ میرے خیال میں پر امن طریقے سے ہی قومی ترقی کےلیے کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے ہم نے اپنی مسلح جدوجہد چھوڑکر پر امن شہری بننے کا فیصلہ کیا۔‘‘

تصویر: DW/A.G.Kakar

بلوچستان کی مخلوط حکومت نے ہتھیار ڈالنے والے مفرور شدت پسندوں کے لیے خصوصی ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے۔ صوبائی محکمہ داخلہ کے ذرائع کے مطابق پر امن بلوچستان کے نام سے بنائے گئے اس پیکج کے تحت ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسندوں کو 5 سے لے کر 15 لاکھ روپے تک کی امدادی رقم اور ان کے بچوں کو مفت تعلیم اور طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ شدت پسندی ترک کر دینے والے ایسے افراد کے لیے بنائے گئے اس پیکج کو منظوری کے لیے وفاقی حکومت کو بھجوایا جا چکا ہے۔

سیکرٹری داخلہ بلوچستان اکبر حسین درانی کے بقول بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری اس خصوصی آپریشن کے دور رس نتائج سامنے آ رہے ہیں اور صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’قیام امن پر حکومت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ جو بھی لوگ بد امنی میں ملوث ہیں، ان کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جا رہی ہے۔ عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کے دوران مستونگ، قلات، خضدار، مشکے اور دیگر علاقوں میں مفرور شدت پسندوں کے کئی کیمپ تباہ کر دیے گئے ہیں۔ ان عناصر کے لیے اب ہتھیار ڈالنے کے علاوہ اور کوئی راستہ باقی نہیں بچا ہے۔ جو مفرور عسکریت پسند ہتھیار نہیں ڈالیں گے، ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔‘‘

واضح رہےکہ بلوچستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلے کی روشنی میں صوبے بھر میں عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کلین اپ شروع کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کے دوران مختلف علاقوں میں اب تک 55 سے زائد مشتبہ عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ آپریشن کے دوران مختلف کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 270 شدت پسندوں کو گرفتار بھی کیا گیا، جن کے قبضے سے بڑے پیمانے پر اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں