بلوچستان میں عسکریت پسندوں کا حملہ، میجر سمیت دو فوجی ہلاک
3 جولائی 2023
پاکستانی صوبہ بلوچستان میں ایک آپریشن کے دوران عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں فوج کا ایک میجر اور ایک سپاہی ہلاک ہو گئے۔ حملے کے ساتھ ہی حملہ آور عسکریت پسندوں اور فوجی دستوں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا تھا۔
اشتہار
صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے پیر تین جولائی کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملکی فوج کی طرف سے بتایا گیا کہ جس وقت عسکریت پسندوں نے فوجی اہلکاروں پر حملہ کیا، وہ شدت پسندوں کی تلاش کے لیے ایک آپریشن میں مصروف تھے۔
پاکستان آرمی کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ حملہ بلوچستان کے ضلع گوادر میں بلور کے مقام پر اتوار دو جولائی کے روز کیا گیا اور آج پیر کی دوپہر تک کسی بھی مسلح گروپ نے اس کی ذمے داری قبول نہیں کی تھی۔ ماضی میں ایسے حملوں کی ذمے داری یا تو تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسند یا کچھ چھوٹے بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کے جنگجو قبول کرتے رہے ہیں۔
فوج کے جاری کردہ بیان کے مطابق اس مسلح جھڑپ میں مارے جانے والے میجر کا نام ثاقب حسین تھا جبکہ دوسرا فوجی ایک نائیک تھا، جس کا نام باقر علی تھا۔
بلوچستان کے دور افتادہ ضلع چاغی کے سرحدی علاقے سیندک میں گزشتہ تیس سالوں سے سونے چاندی اور کاپر کی مائننگ ہو رہی ہے۔ اس علاقے میں سونے چاندی اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مقام پر تانبے کی دریافت سن 1901 میں ہوئی لیکن یہاں کام کا آغاز 1964 میں شروع کیا گیا۔ انیس سو اسی کی دہائی میں معدنیات کی باقاعدہ پیداوار کے لیے ’سیندک میٹل لمیٹڈ‘ کی جانب سے منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
حکومت پاکستان نے منصوبے پر کام کے لیے پہلا معاہدہ چینی کمپنی ’چائنا میٹالارجیکل کنسٹرکشن کمپنی‘ (ایم سی سی ) کے ساتھ کیا۔ ابتدا میں آمدنی کا 50 فیصد حصہ چینی کمپنی جب کہ 50 فیصد حصہ حکومت پاکستان کو ملنے کا معاہدہ طے کیا گیا تھا۔ پاکستان کی مرکزی حکومت اپنی آمدنی سے دو فیصد بلوچستان کو فراہم کرتی تھی تاہم بعد میں یہ حصہ بڑھا کر 30 فیصد کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ میں ملازمین کی کل تعداد اٹھارہ سو کے قریب ہے جن میں چودہ سو کا تعلق پاکستان جب کہ چار سو ملازمین کا تعلق چین سے ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک منصوبے پر ایم سی سی نے اکتوبر 1991 میں کام شروع کیا۔ سن 1996 میں بعض وجوہات کی بنا پر اس منصوبے پر کام روک دیا گیا اور پروجیکٹ کے تمام ملازمین کو ’گولڈن ہینڈ شیک‘ دے کرفارغ کر دیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سن 2000 میں پاکستان کی مرکزی حکومت نے سیندک منصوبے کو لیز پر دینے کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ چینی کمپنی ایم سی سی نے ٹینڈر جیت کر مئی 2001 سے دس سالہ منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے علاقے سے اب تک لاکھوں ٹن سونا، تانبا ، چاندی اور کاپر نکالا جا چکا ہے۔ نکالے گئے ان معدنیات میں سب سے زیادہ مقدار کاپر کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سیندک سے مائننگ کے دوران اب تک دس لاکھ ٹن سے زائد ذخائز نکالے جا چکے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
چینی کمپنی ایم سی سی نے دفتری کام اور پیداواری امور سرانجام دینے کے لیے ’ایم سی سی ریسورس ڈیویلمنٹ کمپنی‘کے نام سے پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کی ہے۔ اس منصوبے کے معاہدے کی معیاد 2021ء تک ختم ہو رہی ہے اور چینی کمپنی علاقے میں مزید مائننگ کی بھی خواہش مند ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں مائننگ کے دوران ڈمپر اسی سے پچانوے ٹن خام مال کو سیمولیٹر کے پاس زخیرہ کرتے ہیں۔ بعد میں سیمولیٹر سے خام مال ریت بن کر دوسرے سیکشن میں منتقل ہو جاتا ہے۔ پلانٹ میں خام مال مختلف رولرز سے گزر کر پانی اور کیمیکلز کے ذریعے پراسس کیا جاتا ہے اور بعد میں اس میٹیرئیل سے بھٹی میں بلاک تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مغربی کان میں کھدائی مکمل ہوچکی ہے تاہم اس وقت مشرقی اور شمالی کانوں سے خام مال حاصل کیا جا رہا ہے۔ پروجیکٹ میں مائننگ کا یہ کام چوبیس گھنٹے بغیر کسی وقفے کے کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
ماہرین کے بقول خام مال سے ہر کاسٹنگ میں چوالیس سے پچپن کے قریب بلاکس تیار کیے جاتے ہیں جن کا مجموعی وزن سات کلوگرام سے زائد ہوتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں سونے تانبے اور چاندی کے تین بڑے ذخائر کی دریافت ہوئی۔ سیندک کی تہہ میں تانبے کی کل مقدارچار سو بارہ ملین ٹن ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انیس سال کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور یہ معاہدہ سن 2021 میں اختتام پذیر ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک پروجیکٹ سے پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے۔ منصوبے میں ملازمین کی کم از کم تنخواہ اسی سے سو ڈالر جب کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ پندرہ سو ڈالر کے قریب ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
12 تصاویر1 | 12
بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند گروپ
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے اور قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان میں کئی ایسے چھوٹے چھوٹے عسکریت پسند یا علیحدگی پسند موجود ہیں، جو گزشتہ دو دہائیوں سے بھی زائد عرصے سے اپنی مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان گروپوں میں شامل بلوچ قوم پسند عناصر پہلے تو صوبے میں قدرتی وسائل سے ہونے والی آمدنی میں سے بلوچستان کے لیے زیادہ بڑے حصے کا مطالبہ کرتے تھے، لیکن بعد میں ان کی یہ جدوجہد مسلح بغاوت اور پھر بلوچستان کی اسلام آباد سے آزادی کی جنگ میں بدل گئی۔
پاکستانی حکام اکثر یہ کہتے ہیں کہ اس صوبے میں مسلح بغاوت اور عسکریت پسندی کا کافی حد تک خاتمہ کر دیا گیا ہے تاہم مسلح بلوچ قوم پسند گروپوں کی ارکان وہاں وقفے وقفے سے خونریز کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
اس حملے میں عسکریت پسندوں نے صوبائی پولیس اور نیم فوجی دستوں کی ایک مشترکہ چیک پوسٹ کو دستی بموں سے نشانہ بنایا تھا، جس کے بعد فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا تھا۔
یہ حملہ ایک ایسے علاقے میں کیا گیا تھا، جہاں مختلف رپورٹوں کے مطابق ممنوعہ تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں کی موجودگی کافی زیادہ ہے۔