1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی

24 فروری 2022

پاکستانی جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقے ہوشاب اور ملحقہ علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے ایک تازہ آپریشن میں 13عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں ۔

Pakistan l Sicherheitskraft am Checkpoint in Quetta
تصویر: Waheed Khan/dpa/picture alliance

تازہ ترین آپریشن میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کا تعلق بلوچستان کی آزادی کے لیے برسر پیکار کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں سے بتایا گیا ہے ۔ مذکورہ تنظیموں نے حال ہی میں شورش زدہ ضلع پنجگور اور نوشکی میں فرنٹیئرکورکے ہیڈ کوارٹرزپر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ 

حکام نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد میں کالعدم تنظیم کا ایک اہم کمانڈرماسٹر آصف عرف مکیش بھی شامل ہے جو کہ تنظیم کے اپریشنل ونگ کے سربراہی کررہے تھے۔ تربت میں تعینات ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار ، شعیب نذیر کہتے ہیں، ''بلوچستان کی بدآمنی میں ملوث عسکریت پسند گروپوں کے خلاف بڑے پیمانے پر جاری یہ کارروائی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا،''بلوچستان کے تمام شورش زدہ علاقوں میں اس وقت انٹیلی جنس اطلاعات پر یہ آپریشن کیے جا رہے ہیں۔ آپریشن میں انسداد دہشت گردی یونٹ کے اہلکار بھی حصہ لے رہے ہیں ۔ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث گروپوں کے حملوں میں رواں سال کے آغاز سے ہی غیرمعمولی تیزی آئی تھی ۔ قیام آمن کو یقینی بنانے کے لیے ہرممکن اقدامات کیے جار ہے ہیں۔‘‘

بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں میں تیزی کیوں؟

شعیب نذیر کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند شہری علاقوں میں روپوش ہیں اور مقامی لوگوں کے بھیس میں حملے کرکے فرارہو جاتے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا،''بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث گروپوں کے خلاف حالیہ کارروائی کے موثر نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ اب تک جو عسکریت پسند جھڑپوں میں ہلاک ہوئے ہیں ان میں حال ہی میں منظر عام پر آنے والی حکومت مخالف مسلح تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی ( بی این آے) کے اہم کمانڈرز، نورسلام ، زبیر اکرم بلوچ ، کمبر بلوچ عرف طارق ، نوربخش اور رسول جان عرف چراغ بھی شامل ہیں ۔‘‘ خصوصی آپریشن کے دوران بڑے پیمانے پر جدید اور خودکار اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا ہے۔

بلوچستان کے مختلف علاقے آئے دن دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہتے ہیںتصویر: Str/Xinhua/picture alliance

دوسری طرف ضلع ژوب کے علاقے شبوزئی میں بھی ایک کارروائی کے دوران سکیورٹی فورسز نے 4 ملزمان کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ اس واقعے کے خلاف ہلاک شدگان کے لواحقین نے بدھ 23 فروری کوکوئٹہ ژوب قومی شاہراہ کو احتجاج کے طور پربلاک کیا۔ 

بلوچوں کی جبری گم شدگیاں، اہل خانہ جواب کے منتظر

مظاہرین نے لاشیں سڑکوں پر رکھ کرحکومت کے خلاف نعرے لگائے اور دعویٰ کیا کہ فورسز نے بے گناہ نوجوانوں کوبلاوجہ فائرنگ کرکے قتل کیا ہے ۔ ژوب میں پیش آنے والے اس واقعے کے خلاف پشتون تحفظ موومنٹ ، پی ٹی ایم کے کارکنوں نے بھی احتجاج کیا اورریاستی اداروں پر شدید تنقید کی۔ ژؤب میں مقیم قبائلی رہنما، آمیرجان مندوخیل کہتے ہیں کہ ریاستی ادارے اپنے غیرآئینی اقدامات کی وجہ سے عوام میں اپنا اعتماد کھو رہے ہیں ۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''کلی شبوزئی میں ہونے والی فورسز کی کارروائی کے دوران چادر اورچاردیواری پامال کی گئی ۔ یہ واقعہ ریاستی ظلم کی ایک منفرد داستان ہے ۔ جن چارنوجوانوں کوقتل کیا گیا ہے وہ طالبعلم تھے۔ کیا کوئی سرکاری ادارہ اپنے شہریوں پر اس طرح ظلم کرسکتا ہے ۔ اس واقعے کے خلاف مظلوم خاندان نے دن بھر احتجاج کیا مگر ان کی کسی نے داد رسی نہ کی۔‘‘

امیرجان کا کہنا تھا کہ قانون کے محافظ اگر اختیارات سے اسی طرح تجاوز کرتے رہے تو ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان دوریاں مزید بڑھ سکتی ہیں  ان کے بقول، ''حکومت اگر واقعی یہاں امن کو یقینی بنانا چاہتی ہے تو پہلے خود اپنے لیے آئینی حدود کا تعین کرے۔ جو اہلکار بے گناہ شہریوں کے خون سے کھیل رہے ہیں انہیں تحفظ فراہم کرنے کی بجائے گرفتار کرکے واقعی سزا دی جائے۔‘‘

چینی سرمایہ کاری سے بلوچستان میں غصہ کیوں؟

ژوب میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے بعد حکومت نے متعلقہ حکام کو واقعے کی تحقیقات کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ صوبائی وزیراعلیٰ قدوس بزنجو نے کمشنر ژوب ڈویژن کو اڑتالیس گھنٹوں میں مذکورہ واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کے دوران ضلع کوہلو کےعلاقےمیں گزشتہ روزفائرنگ کے تبادلےمیں کیپٹن حیدرعباس بھی ہلاک ہوئے تھے۔ حیدرعباس کا تعلق پاکستانی فوج کے اسپیشل سروسز گروپ ( ایس ایس جی ) سے تھا ۔ 

بلوچستان کے سرحدی علاقوں پر تعینات پاراملٹری فورسزتصویر: AP

پاکستان میں دفاعی امور کے سینیئر تجزیہ کار ، میجر ریٹائرڈ عمر فاروق کہتے ہیں کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کا تعلق خطے کے بدلتے ہوئے جغرافیائی حالات سے ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''دیکھیں بلوچستان کی اسٹریٹیجک اہمیت کئی حوالوں سے بہت اہم ہے ۔ یہاں بدامنی پھیلا کرپاکستان مخالف قوتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہونا چاہتی ہیں ۔ شدت پسند اور بلوچ عسکریت پسند گروپوں کو ایک منظم پلان کے تحت متحرک بنایا گیا ہے ۔ یہاں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو کم کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں ۔ آزادی پسند مسلح تنظیمیں یہ نہیں چاہتیں کہ یہاں غیرملکی سرمایہ کاری بڑھے۔ حکومتی سطح پر بھی کئی ایسی خامیاں ہیں جنہیں اس ضمن میں دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ قیام آمن کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔‘‘

بلوچ علیحدگی پسندوں کا نشانہ عام مزدور کیوں؟

عمرفاروق کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں حقوق کی جنگ میں عسکریت پسند بڑے پیمانے پر اپنے لوگوں کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا،''خطے کی مجموعی سلامتی کے معاملات میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ اس حوالے سے حکومت نے جو پالیسی مرتب کی ہے اس کا از سرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اگر دہشت گردی کی یہی لہرجاری رہی توصوبے میں غیرملکی سرمایہ کاری پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔‘‘

رواں ماہ 16 فروری کوایرانی سرحد سے ملحقہ  بلوچ علاقے بلیدہ میں بھی آپریشن کے دوران 6 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ، آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک ہونے والے عسکریت پسند کیچ کے علاقے میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث تھے۔ دوسری جانب کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ نیشنلسٹ آرمی نے مختلف علاقوں میں فوجی چوکیوں اور دیگر اہداف پر حملوں کے دعوے کیے ہیں ۔عسکریت پسند تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ فوجی تنصیبات پر تازہ حملوں میں کئی اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں ۔

 

مصنف : عبدالغنی کاکڑ ، کوئٹہ 

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں