1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں غیر قانونی افغان تارکین کے خلاف آپریشن

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ24 ستمبر 2013

پاکستانی صوبہ بلوچستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان مہاجرین کےخلاف سکیورٹی فورسز نے کریک ڈاون شروع کر دیا ہے۔ اب تک اس کارروائی کے دوران 350 سے زائد غیر قانونی افغان تارکین وطن کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

تصویر: Abdul Ghani Kakar

حکام کے مطابق ان افراد کو تحقیقات کے بعد واپس افغانستان ڈی پورٹ کیا جائے گا۔ دوسری طرف بلوچستان سے ملحقہ پاک افغان سرحد سے افغان مہاجرین کی غیر قانونی نقل و حمل روکنے کے لیے بھی سکیورٹی انتظامات میں غیر معمولی اضافہ کر دیا گیا ہے۔

بلوچستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان مہاجرین کے خلاف خصوصی آپریشن صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے علاوہ صوبے کے کئی دیگر اضلاع میں بھی کیا جا رہا ہے۔ ان میں پشین، قلعہ عبداللہ، نوشکی، دالبندین، قلعہ سیف اللہ، مستونگ، خضدار، تربت اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ اس میں پولیس، لیویز، ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔

افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد پر کوئی کنٹرول نہیں ہے، طلعت مسعود

پاک افغان سرحد پر افغان مہاجرین کی غیر قانونی نقل و حمل روکنے کے لیے بھی وہاں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔ صوبائی محکمہ داخلہ کے ذرائع کے مطابق افغان تارکین وطن کے خلاف جاری اس کارروائی کے دوران اب تک 370 ایسے افغان مہاجرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے جو یا تو غیر قانونی طور پر حال ہی میں پاکستان داخل ہوئے تھے یا انہوں نے مہاجر کیمپوں سے حکام کی اجازت کے بغیر شہروں کا رخ کیا تھا۔

دفاعی امور کے ممتاز پاکستانی تجزیہ کار جنرل (ر) طلعت مسعود کے مطابق امن وامان اور بڑھتے ہوئے اقتصادی مسائل کی روک تھام کے لیے پاکستان کو افغانستان سے ملحقہ سرحد کو محفوظ بنانا ہو گا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مذید کہنا تھا، ’’افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ افغان مہاجرین یہاں آسانی سے غیر قانونی طور داخل ہو رہے ہیں۔ اس کا روک تھام ہونا چاہیے۔ پاکستان اب ان ریاستوں میں شامل ہو گیا ہے جو اپنی سرحدوں کو بالکل کنٹرول نہیں کر پا رہا۔ خاص کر اس کی مغربی سرحد بہت غیر محفوظ ہے اسی لیے اس کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘

اس آپریشن میں پولیس، لیویز، ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار حصہ لے رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

جنرل (ر) طلعت مسعود کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان سے جو مداخلت پاکستان میں ہو رہی ہے اس کی روک تھام کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان ایسےاقدامات اٹھائے جن سے افغان مہاجرین کی غیر قانونی داخلے کو روکا جا سکے کیونکہ ان کے آڑ میں ہر کوئی افغانستان سے با آسانی پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے۔ طلعت مسعود کا مزید کہنا تھا، ’’پاکستان کو اس وقت دہشت گردی اورجس انتہا پسندی کا سامنا ہے اس کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں سب سے پہلے مہاجرین پر مکمل کنٹرول حاصل کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہی ہو سکتے۔‘‘

پاکستان نے سرد جنگ اور طالبان دور میں افغانستان سے آنے والے لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی تھی۔ تاہم اب تک ان کی اکثریت کی واپسی ممکن نہ ہونے پر پاکستانی حکومت اب پریشان ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 7.5 ملین مہاجرین آباد ہیں جن میں بڑی تعداد افغان مہاجرین کی ہے۔ ان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد محض 16 لاکھ 30 ہزار ہے۔

طے شدہ شیڈول کے مطابق پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی رضا کارانہ وطن واپسی کا عمل 31 دسمبر 2015ء تک مکمل ہونا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں