1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں قیام امن قومی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے، صدر ممنون

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ24 دسمبر 2014

پاکستانی صدر ممنون حسین نے نے کہا ہے کہ شورش زدہ صوبے بلوچستان میں قیام امن کی خاطر دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جا رہی ہے اور ملک سے شدت پسندی کے خاتمے پر حکومت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔

صدر پاکستان ممنوں حسینتصویر: picture-alliance/AP Photo

بدھ کو خصوصی دورے پر کوئٹہ پہنچنے کے بعد امن وا مان کے حوالے سے ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کے دوران صدر پاکستان کا کہنا تھا کہ بلوچستان ملک کا اہم ترین حصہ ہے اور یہاں امن قائم کیے گئے بغیر ملک میں استحکام نہیں آ سکتا۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ایسےعناصر کا صفایا کیا جائے جوکہ عسکریت پسندی کی آڑ میں ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں ۔

صدر ممنون نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پوری قوم متحد ہے اور عسکریت پسندوں کے خلاف جاری کارروائی کے دور رس نتائج سامنے آ رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول کا کردار ادا کر رہا ہے اور اپنی سرزمین کودہشت گردی کے لیے کھبی استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔

اجلاس کے دوران صدر کو بلوچستان میں پاک افغان سرحد کے گرد خندق کی کھدائی اور امن و امان کی مجموعی صورتحال کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی، جس میں گورنر بلوچستاں سمیت دیگر اعلی فوجی اور سول حکام نے بھی شرکت کی۔

حکومت کو بلوچستان میں شورش کا سامنا ہےتصویر: DW/A.G.Kakar

بریفنگ کے دوران سیکورٹی حکام کا کہنا تھا کہ 26 کروڑ روپے کی لاگت سے کھودی جانے والی 8 فٹ گہری اور 10 فٹ چوڑی خندق کی کھدائی سے ملک میں غیر ملکی عسکریت پسندوں کی دراندازی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ پاکستانی حدود میں سرحد کے گرد بعض حساس حصوں پر خاردار تاریں بھی لگائی گئیں ہیں اور وہاں باقاعدگی سے نیم فوجی دستے گشت کرتے ہیں تاکہ شمالی وزیرستان اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں ’ فاٹا‘ سے افغانستان فرار ہونے والے شدت پسند دوبارہ بلوچستان کے راستے پاکستان میں داخل نہ ہوسکیں۔

480 کلو میٹر لمبی اس خندق کی کھدائی کا کام رواں سال ستمبر میں شروع کیا گیا تھا، جس پر افغانستان کے بعض سرحدی امور کے حکام نے تنقید بھی کی تھی تاہم پاکستانی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر اور دفتر خارجہ نے اس تنقید کو مسترد کر تے ہوئے اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا تھا۔

گورنر ہاوس کوئٹہ میں صدر سے وزیر داخلہ بلوچستان ، سدرن کمانڈ کے حکام اور حساس اداروں کے اعلی افسران نے بھی ملاقات کی اور انہیں سانحہ پشاور کے بعد بلوچستان میں ٹی ٹی پی کے روپوش مشتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف ہونی والی کارروائی سے آگاہ کیا۔

صدر کو بتایا گیا کہ بلوچستان میں سیکورٹی کا جامع پلان مرتب کیا گیا ہے اور کسی بھی دہشت گردی کے ممکنہ واقعے سے بروقت نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کئے گئے ہیں تاکہ شہریوں کی جان ومال کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ اس موقع پر صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے صدر کو بتایا کہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف سیکورٹی فورسز نے موثر کارروائیاں کی ہیں اور ان کارروائیوں کی وجہ صوبے میں نہ صرف امن و امان کی صورتحال میں بہتری واقع ہوئی ہے بلکہ تخریب کاری پھیلانے کے کئی منصوبوں کو بھی ناکام بنایا گیا ہے۔

صدرممنون حسین نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ صوبے میں شورش کے خاتمے کے لیے ان مسلح گروپوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جو کہ اپنے مفادات کے لیے حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں ۔ دورہ بلوچستان کے دوران صدر پاکستان آج بروز جمعرات ضلع زیارت میں قائد اعظم ریزیڈنسی کا دورہ بھی کریں گے اور وہاں انہیں صوبے میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بریفنگ دی جا ئے گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں