بلوچستان میں مسلح افراد کا حملہ، چار سکیورٹی اہلکار ہلاک
18 فروری 2019
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں مسلح افراد کی طرف سے سکیورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ پر حملے کے نتیجے میں پیرا ملٹری فورسز کے چار اہلکار ہلاک ہو گئے ہيں۔ یہ بات پاکستانی حکام نے آج پیر 18 فروری کو بتائی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بلوچستان کے ضلع پنجگور میں یہ حملہ اتوار 17 فروری کو کیا گیا۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جنوبی ایشیا اور چین کے اپنے دورے کے آغاز پر اسلام آباد پہنچ رہے تھے۔
پیراملٹری فورس فرنٹیئر کور کے ترجمان خان واسع نے خبر رساں روئٹرز کو بتایا، ’’چار جوانوں کو گولیوں سے کئی زخم آئے اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔‘‘
پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری روایتی حریف ہمسایہ ملک بھارت پر عائد کی ہے تاہم بھارت نے اسے رد کر دیا ہے۔
روئٹرز کے مطابق ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی تاہم حملے کی نوعیت سے یہ علیحدگی پسندوں کی کارروائی معلوم ہوتی ہے جن کا دعویٰ ہے کہ اس صوبے کے گیس اور قدرتی وسائل سے دیگر صوبوں کو تو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے مگر اس صوبے کی غریب عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند کئی دہائیوں سے مسلح کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران اس صوبے میں چین اور سعودی عرب سمیت کئی دیگر ممالک کی طرف سے سرمایہ کاری کے بعد یہ صوبہ کافی اہمیت حاصل کر چکا ہے۔
چین نے پاکستانی صوبہ بلوچستان کی گہرے پانی کی اہم بندرگاہ گوادر پر بڑی سرمایہ کاری کی ہے اور اس کے علاوہ صوبہ بلوچستان سمیت پاکستان کے کئی علاقوں میں سڑکوں اور دیگر انفراسٹرکچر بھی تیار کیا جا رہا ہے تاکہ گوادر کی بندرگاہ کو بذریعہ سڑک چین کے ساتھ جوڑا جا سکے۔ اس منصوبے کو چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کا نام دیا گیا ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے دورہ پاکستان کےموقع پر پاکستان میں 20 بلین امریکی ڈالرز کے برابر سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ ان میں 10 بلین امریکی ڈالرز کے سرمائے سے گوادر میں ایک آئل ریفائنری کا قیام بھی شامل ہے۔
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں
بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار دنیا کے بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ اس کوئلہ کا ایک ٹن اوپن مارکیٹ میں 10 سے 11 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ
بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقےمیں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کم اجرت
18 سالہ سید محمد مچھ کےعلاقے مارواڑ میں گزشتہ دو سالوں سے ٹرکوں میں کو ئلے کی لوڈ نگ کا کام کرتا ہے، جس سے روزانہ اسے 3 سو سے پانچ سو روپے تک مزدوری مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کان کن
بلوچستان کے علا قے مارواڑ،سورینج، ڈیگاری ،سنجدی اور چمالانگ کے کوئلہ کانوں میں سوات، کوہستان اور خیبر پختونخواء سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کانوں میں حادثات سے درجنوں کان کن ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
سہولیات کا فقدان
بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث بلوچستان میں کان کنی سے وابستہ افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے حکومتی سطح پرابھی تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ مائننگ کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی لیے ان کانوں میں حادثات کے باعث اکثر اوقات کانکن اندر پھنس جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیرین زادہ
55 سالہ شیرین زادہ سوات کے پہاڑی ضلع شانگلہ کا رہائشی ہے، جو گزشتہ 25 سالوں سے بلوچستان میں کان کنی کا کام کر رہا ہے۔ شیرین زادہ کہتے ہیں کہ کوئلے کی کانوں میں مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کی ترسیل
مزدور مجموعی طور ہر کوئلے کے ایک ٹرک کی لوڈ نگ کا معاوضہ 3 سے 4 ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں۔ یہ رقم بعد میں آپس میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ بعد میں یہ کوئلہ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ٹرک میں 28 سے 34 ٹن کوئلے گنجائش ہوتی ہے۔