کوئٹہ حکومت نے صوبے میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کی کان کنی کے لیے ایک نئی اور سخت شرائط پر مبنی معدنی پالیسی مرتب کی ہے، جس کے تحت یہ ضروری ہو گا کہ کان کنی کے ہر معاہدے میں بلوچستان ایک بڑا شراکت دار ہو۔
اشتہار
کوئٹہ حکومت کے مطابق ماضی میں بلوچستان میں ضلع چاغی اور سیندک میں سونے اور دیگر معدنیات کے وسیع ذخائر کی مائننگ کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں نے اس صوبے کو اس کے حقوق سے محروم رکھا۔ چاغی کے سیندک پروجیکٹ کا پہلا معاہدہ چینی کمپنی چائنہ میٹلرجیکل کنسٹرکشن کمپنی (ایم سی سی) کے ساتھ کیا گیا تھا۔ ابتداء میں آمدنی کا پچاس فیصد حصہ اس چینی کمپنی کو جبکہ باقی پچاس فیصد حکومت پاکستان کو ملنے کا معاہدہ کیا گیا تھا۔
سیندک کے علاقے سے اب تک لاکھوں ٹن سونا، چاندی اور تانبا نکالے جا چکے ہیں۔ ان معدنیات میں مگر سب سے زیادہ مقدار تانبے کی تھی۔ بلوچستان حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان کی مرکزی حکومت صوبے کے وسائل سے ہونے والی آمدنی کا صرف دو فیصد حصہ بلوچستان کو فراہم کرتی تھی تاہم بعد میں یہ حصہ بڑھا کر تیس فیصد کر دیا گیا تھا۔
'آئندہ نسلوں پر اثر انداز ہونے والے فیصلے‘
صوبائی وزیر اعلیٰ جام کمال کہتے ہیں کہ چینی کمپنیوں سمیت کسی بھی غیر ملکی کمپنی کے ساتھ آئندہ صوبے کے مفادات سے متصادم کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا۔ کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران جام کمال نے کہا، ''حکومت بلوچستان معدنی ذخائر اور تیل اور گیس کی تلاش کے معاہدوں میں ایک بڑے شراکت دار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ماضی میں مرکزی سطح پر غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ جو بھی معاہدے کیے گئے، ان میں بلوچستان کے حقیقی مفادات کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں موجود قدرتی وسائل کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اسی صوبے کو ملے۔ ہمارے آج کے فیصلے آنے والی نسلوں پر اثر انداز ہوں گے۔‘‘
سیندک منصوبہ: سونے اور چاندی کے وسیع ذخائر
بلوچستان کے دور افتادہ ضلع چاغی کے سرحدی علاقے سیندک میں گزشتہ تیس سالوں سے سونے چاندی اور کاپر کی مائننگ ہو رہی ہے۔ اس علاقے میں سونے چاندی اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مقام پر تانبے کی دریافت سن 1901 میں ہوئی لیکن یہاں کام کا آغاز 1964 میں شروع کیا گیا۔ انیس سو اسی کی دہائی میں معدنیات کی باقاعدہ پیداوار کے لیے ’سیندک میٹل لمیٹڈ‘ کی جانب سے منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
حکومت پاکستان نے منصوبے پر کام کے لیے پہلا معاہدہ چینی کمپنی ’چائنا میٹالارجیکل کنسٹرکشن کمپنی‘ (ایم سی سی ) کے ساتھ کیا۔ ابتدا میں آمدنی کا 50 فیصد حصہ چینی کمپنی جب کہ 50 فیصد حصہ حکومت پاکستان کو ملنے کا معاہدہ طے کیا گیا تھا۔ پاکستان کی مرکزی حکومت اپنی آمدنی سے دو فیصد بلوچستان کو فراہم کرتی تھی تاہم بعد میں یہ حصہ بڑھا کر 30 فیصد کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ میں ملازمین کی کل تعداد اٹھارہ سو کے قریب ہے جن میں چودہ سو کا تعلق پاکستان جب کہ چار سو ملازمین کا تعلق چین سے ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک منصوبے پر ایم سی سی نے اکتوبر 1991 میں کام شروع کیا۔ سن 1996 میں بعض وجوہات کی بنا پر اس منصوبے پر کام روک دیا گیا اور پروجیکٹ کے تمام ملازمین کو ’گولڈن ہینڈ شیک‘ دے کرفارغ کر دیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سن 2000 میں پاکستان کی مرکزی حکومت نے سیندک منصوبے کو لیز پر دینے کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ چینی کمپنی ایم سی سی نے ٹینڈر جیت کر مئی 2001 سے دس سالہ منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے علاقے سے اب تک لاکھوں ٹن سونا، تانبا ، چاندی اور کاپر نکالا جا چکا ہے۔ نکالے گئے ان معدنیات میں سب سے زیادہ مقدار کاپر کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سیندک سے مائننگ کے دوران اب تک دس لاکھ ٹن سے زائد ذخائز نکالے جا چکے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
چینی کمپنی ایم سی سی نے دفتری کام اور پیداواری امور سرانجام دینے کے لیے ’ایم سی سی ریسورس ڈیویلمنٹ کمپنی‘کے نام سے پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کی ہے۔ اس منصوبے کے معاہدے کی معیاد 2021ء تک ختم ہو رہی ہے اور چینی کمپنی علاقے میں مزید مائننگ کی بھی خواہش مند ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں مائننگ کے دوران ڈمپر اسی سے پچانوے ٹن خام مال کو سیمولیٹر کے پاس زخیرہ کرتے ہیں۔ بعد میں سیمولیٹر سے خام مال ریت بن کر دوسرے سیکشن میں منتقل ہو جاتا ہے۔ پلانٹ میں خام مال مختلف رولرز سے گزر کر پانی اور کیمیکلز کے ذریعے پراسس کیا جاتا ہے اور بعد میں اس میٹیرئیل سے بھٹی میں بلاک تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مغربی کان میں کھدائی مکمل ہوچکی ہے تاہم اس وقت مشرقی اور شمالی کانوں سے خام مال حاصل کیا جا رہا ہے۔ پروجیکٹ میں مائننگ کا یہ کام چوبیس گھنٹے بغیر کسی وقفے کے کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
ماہرین کے بقول خام مال سے ہر کاسٹنگ میں چوالیس سے پچپن کے قریب بلاکس تیار کیے جاتے ہیں جن کا مجموعی وزن سات کلوگرام سے زائد ہوتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں سونے تانبے اور چاندی کے تین بڑے ذخائر کی دریافت ہوئی۔ سیندک کی تہہ میں تانبے کی کل مقدارچار سو بارہ ملین ٹن ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انیس سال کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور یہ معاہدہ سن 2021 میں اختتام پذیر ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک پروجیکٹ سے پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے۔ منصوبے میں ملازمین کی کم از کم تنخواہ اسی سے سو ڈالر جب کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ پندرہ سو ڈالر کے قریب ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
12 تصاویر1 | 12
جام کمال کا کہنا تھا کہ صوبے کی نئی منرل پالیسی دو ہزار انیس طویل مشاورت اور جانچ پڑتال کے بعد تیار کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''ہم اپنے قدرتی وسائل پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اس نئی منرل پالیسی کے مطابق آئندہ سرمایہ کار کمپنیوں سے نئے طریقہ ہائے کار اور شرائط کے مطابق ہی معاہدے طے کیے جائیں گے۔ بلوچستان میں ساحلی علاقوں، کان کنی اور توانائی کے متبادل ذرائع کی ترقی کی بے پناہ گنجائش موجود ہے اور یہ جملہ وسائل ایک جگہ پر دنیا میں شاید ہی کہیں اور پائے جاتے ہوں۔‘‘
غیر ملکی کمپنیاں سرمایہ کاری کی خواہش مند
بلوچستان میں چینی کمپنیوں سمیت کئی دیگر غیر ملکی اداروں نے بھی کان کنی، توانائی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی ہے۔ صوبائی حکومت کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے بلوچستان کو 28 بلاکس پر مشتمل چھ مختلف زونز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان زونز میں معدنی شعبے کے ساتھ ساتھ اس وقت تیل اور گیس کی تلاش کا عمل بھی جاری ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی ثناء اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچستان سرمایہ کاری کے لیے انتہائی موزوں خطہ ہے مگر صوبے کے وسائل پر بلوچ عوام کی حاکمیت کے حق کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتےہوئے انہوں نے کہا، ''حکومتی موقف ایک طرف، لیکن بلوچستان کے وسائل کو ہمیشہ لوٹا گیا ہے۔ میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ماضی میں صوبے میں معدنیات کے حوالے سے ہونے والے معاہدوں میں بلوچستان کے مفادات کا بھی خیال رکھا جاتا، تو آج ملک کا یہ امیر ترین خطہ اس قدر بحرانوں کا شکار نہ ہوتا۔‘‘
بلوچستان کے شپ بریکنگ یارڈ میں حادثہ، 10 مزدور ہلاک
پاکستان کے صوبے بلوچستان کے کراچی سے متصل علاقے لسبیلہ میں گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں دھماکوں کے نتیجے میں دس افراد ہلاک اور 45 زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Khan
درجنوں مزدور پھنسے رہے
نیوز ایجنسی اے پی کو پولیس افسر محمد عبداللہ نے بتایا،’’ جب مزدور ایک پرانے بحری جہاز کی توڑ پھوڑ کر رہے تھے اس وقت آئل ٹینک پھٹ گیا تھا۔‘‘ ابتدائی رپورٹس کے مطابق آئل ٹینک میں دھماکہ ہونے کے بعد درجنوں مزدور پھنسے رہے جبکہ کئی مزدوروں نے اپنی زندگیاں بچانے کے لیے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Khan
قیمتی جانوں کا ضیاع
محمد عبداللہ نے اے پی کو مزید بتایا،’’ اس سانحے میں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں اور زخمی افراد کو کراچی بھجوا دیا گیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے بھی قیمتی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber
ریسکیو کا کام جاری ہے
پاکستانی انگریزی اخبار ڈان کے مطابق اب تک 30 مزدوروں کے بارے میں کوئی اطلاعات نہیں ہیں جبکہ کچھ مزدور جہاز پراب بھی پھنسے ہوئے ہیں جن کو ریسکیو کرنے کا کام جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Khan
گڈانی
گڈانی بلوچستان کا ساحلی علاقہ ہے جو کراچی کے قریب واقع ہے۔ یہ پاکستان کا واحد شپ بریکنگ یارڈ ہے اور یہاں پہلے بھی اس طرح کے حادثات پیش آتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Khan
4 تصاویر1 | 4
بلوچ عوام 'احساس کمتری‘ کا شکار
ثناء اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائز سے ملک کو سالانہ اربوں روپے کا جو زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے، اس میں سے اس صوبے کو ضابطے کے مطابق حصہ نہیں دیا جاتا۔ انہوں نے کہا، ''بلوچستان کے عوام اس وقت احساس کمتری کا شکار ہیں۔ حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن حقیقی معنوں میں صوبے کو اس کے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ سی پیک منصوبے کو ہی لے لیجیے، اب تک اس منصوبے میں مرکزی حیثیت گوادرکی بندرگاہ کو حاصل ہے، لیکن وہاں کے عوام ترقی تو درکنار پینے کے صاف پانی کے حصول تک کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔‘‘
دیگر غیر ملکی کمپنیوں کی طرح پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت چینی کمپنیاں بھی بلوچستان میں توانائی کے شعبے میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے جا رہی ہیں۔
وفاق اور صوبے میں ٹکراؤ کا خدشہ
سیاسی اور علاقائی امور کے تجزیہ کار فرمان رحمان کے بقول بلوچستان حکومت کی نئی منرل پالیسی صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے مابین ٹکراؤ کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستان کی مرکزی حکومت خود کو ہمشہ ایک اہم شراکت دار کے طور پر پیش کرتی رہی ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کے اختیارات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس نئی منرل پالیسی کے تحت صوبائی حکومت معاہدوں کے حوالے سے زیادہ خود مختار ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ مرکزی حکومت اس ضمن میں خاموشی اختیار کیے رہے گی۔‘‘
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں
بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار دنیا کے بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ اس کوئلہ کا ایک ٹن اوپن مارکیٹ میں 10 سے 11 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ
بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقےمیں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کم اجرت
18 سالہ سید محمد مچھ کےعلاقے مارواڑ میں گزشتہ دو سالوں سے ٹرکوں میں کو ئلے کی لوڈ نگ کا کام کرتا ہے، جس سے روزانہ اسے 3 سو سے پانچ سو روپے تک مزدوری مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کان کن
بلوچستان کے علا قے مارواڑ،سورینج، ڈیگاری ،سنجدی اور چمالانگ کے کوئلہ کانوں میں سوات، کوہستان اور خیبر پختونخواء سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کانوں میں حادثات سے درجنوں کان کن ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
سہولیات کا فقدان
بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث بلوچستان میں کان کنی سے وابستہ افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے حکومتی سطح پرابھی تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ مائننگ کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی لیے ان کانوں میں حادثات کے باعث اکثر اوقات کانکن اندر پھنس جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیرین زادہ
55 سالہ شیرین زادہ سوات کے پہاڑی ضلع شانگلہ کا رہائشی ہے، جو گزشتہ 25 سالوں سے بلوچستان میں کان کنی کا کام کر رہا ہے۔ شیرین زادہ کہتے ہیں کہ کوئلے کی کانوں میں مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کی ترسیل
مزدور مجموعی طور ہر کوئلے کے ایک ٹرک کی لوڈ نگ کا معاوضہ 3 سے 4 ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں۔ یہ رقم بعد میں آپس میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ بعد میں یہ کوئلہ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ٹرک میں 28 سے 34 ٹن کوئلے گنجائش ہوتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
6 تصاویر1 | 6
فرمان رحمان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں سرمایہ کاری کی خواہش مند غیر ملکی کمپنیوں کو معاہدوں کے لیے اب پسند ناپسند کے بجائے پیشہ ورانہ سوچ کے ساتھ آگے آنا ہوگا۔ ان کے مطابق، ''بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ہونے والے معاہدوں کے حوالے سےپیدا شدہ تنازعات ماضی میں بھی صوبائی حکومت پر واضح طور پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔
گورنر راج کی مثال
پاکستان پیپلزپارٹی کی بلوچستان میں ایک گزشتہ مخلوط حکومت بھی ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعے کے باعث گورنر راج نافذ کر کے ختم کر دی گئی تھی۔
سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے اپنے دور حکومت میں ریکوڈک منصوبے سے متعلق معاہدہ بھی خلاف ضابطہ قرار دے کر ختم کر دیا تھا۔
سیندک اور ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کا شمار ایشیا میں ایسے بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔ سیندک منصوبے میں توسیع سے متعلق امور کا جائزہ لینے کے لیے ایک چینی کمپنی کے ساتھ صوبائی حکومت کی تشکیل کردہ ٹیم آئندہ چند روز میں مذاکرات کرنے والی ہے۔
یہ ٹیم اس اجلاس کے بعد صوبے میں سونے، چاندی اور تانبے کی کان کنی کے لیے اپنی سفارشات کوئٹہ میں صوبائی حکومت کو پیش کرے گی۔
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں اور ان کے مزدور
کان کنی کو 18 ویں صدی کے صنعتی انقلاب کی بنیاد سمجھا جاتا ہے تاہم بدلتے وقت اور اس پیشے سے منسلک خطرات کے سبب بین الاقوامی سطح پر اس جانب سے توجہ منتقل ہوئی ہے۔ پاکستان میں اب بھی کئی مقامات پر کوئلے کی کانیں موجود ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات سے دور
بلوچستان کے علاقے سورن رینج میں کوئلے کی کان میں مزدوری کرنے والے سینکڑوں مزدوروں میں سے ایک بخت زمین کا تعلق سوات سے ہے۔ وہ چھ افراد کے کنبے کی کفالت کرتا ہے اور انہی پہاڑوں میں ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات سے میلوں دور زندگی بسر کرتا ہے
تصویر: DW/S. Khan
کان کنی اور تعلیم ساتھ ساتھ
فضل کریم ایک نوجوان کان کن ہے، سخت حالات میں وہ دن کے اوقات میں اپنی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور رات میں کان میں کام کرتا ہے، مائیکرو بائیالوجی کا یہ طالب علم یہاں کے کان کنوں کے لیے ایک درخشاں مثال ہے۔
تصویر: DW/S. Khan
تعلیمی سہولیات کی عدم فراہمی
کان کنوں کی اس آبادی میں ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ بھی رہ رہے ہیں۔ صالحہ اور صنم دو بہنیں ہیں اور یہاں اسکول یا مدرسہ نہ ہونے کے سبب خاصی اداس رہتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
غلیل سے چڑیا کا شکار
بلوچستان کے ان پہاڑی علاقوں میں رہنے والے کان کنوں کے بچے دل بہلانے کے لیے مختلف کھیل کھیل کر وقت گزارتے ہیں۔ یہ بچے غلیل سے چڑیا کا شکار کرنے میں مصروف ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
ایک عمر بیت گئی
67 سالہ عبد الخالق گزشتہ قریب چار عشروں سے یہاں مزدوری کر رہے ہیں۔ سانس کی تکلیف میں مبتلا عبدالخالق کا اب دنیا میں کوئی نہیں رہا اور ان کے شب و روز یہیں گزارتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
کان کنوں کی جانوں کو دوسرا خطرہ
ایک مزدور کان سے نکلنے والے فضلے کو پہاڑی ڈھلان سے نیچے پھینک رہا ہے۔ بلوچستان میں بدامنی کے سبب اب پہلے کے مقابلے میں بہت کم کان کن رہ گئے ہیں اور ان کی اکثریت اپنے آبائی علاقوں کی طرف چلی گئی ہے۔
تصویر: DW/S. Khan
زندگی اور موت کوئلے کی کانوں کے پاس
عشروں سے بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑی علاقوں میں کان کنی کرنے والے مزدور موت کے بعد بھی کمزور اقتصادی حالات کے سبب اپنے آبائی علاقوں میں نہیں لے جائے جاتے اور یہی دفنا دیے جاتے ہیں۔