1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں رقص کرتی موت

22 مارچ 2024

پاکستان میں حکومتی دعووں کے باوجود صوبہ بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں کارکنوں کو درپیش خطرات ختم نہیں ہو سکے۔ ماہرین کے بقول متعلقہ کمپنیوں اور ریگولیٹرز کی غفلت کے باعث ہزاروں کان کنوں کی جانیں داؤ پر لگی ہیں۔

بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد اسی ہزار سے زائد ہے
بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد اسی ہزار سے زائد ہےتصویر: A. G. Kakar/DW

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں مجموعی طور پر 80 ہزار سے زائد مزدورکام کرتے ہیں۔ صوبے میں ایسی 2600 سے زیادہ کانوں میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق کوئلے کے ذخائر کا حجم 25 کروڑ ٹن سے زائد ہے۔

وہاں سے نکالا جانے والا کوئلہ بلوچستان کے ساتھ ساتھ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں سیمنٹ کے کارخانوں، بجلی گھروں اور کئی دیگر شعبوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

کوئٹہ اور بولان سمیت صوبے کے شمال مشرقی علاقوں دکی، چمالانگ، لورالائی اور ہرنائی میں واقع ایسی کانوں سے نکلنے والا کوئلہ پاکستان کا بہترین کوئلہ سمجھا جاتا ہے۔

پاکستانی صوبہ بلوچستان میں کوئلے کی کانیں: وسائل وسیع تر، لیکن کارکنوں کی جانوں کو لاحق خطرات بھیتصویر: MINES AND MINERALS DEVELOPMENT DEPARTMENT BALOCHISTAN/AFP

قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں زہریلی گیس کے باعث ہونے والے دھماکوں، کانوں کے بیٹھ جانے اور دیگر حادثات میںسالانہ بیسیوں کان کن ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان کارکنوں کی جانوں کو درپیش خطرات دور کرنے کے لیے اب تک جو اقدامات کیے گئے ہیں، وہ کافی حد تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔

کان کنوں کی جانوں کو لاحق خطرات کی وجوہات کیا؟

پاکستان کے اس صوبے میں کوئلے کی کانوں میں ایسے ہزاروں مزدور بھی کام کرتے ہیں، جن کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقوں سوات، مالاکنڈ یا پھر ہمسایہ ملک افغانستان کے مختلف حصوں سے ہے۔ ان مزدوروں کو معاوضہ بھی ان کی محنت کے تناسب سے ادا نہیں کیا جاتا۔

سکیورٹی خدشات، کان کنی کی صنعت کو اربوں کا نقصان

03:45

This browser does not support the video element.

خیبر پختونخوا کے علاقے شانگلہ سے تعلق رکھنے والے 55 سالہ کارکن زر ولی گزشتہ آٹھ سال سے کوئٹہ کے قریب سورینج کے علاقے میں واقع کوئلے کی ایک کان میں کام کرتے ہیں۔ زر ولی کہتے ہیں کہ دن بھر کام کےباوجود کان کی مالک کمپنی انہیں اتنی اجرت نہیں دیتی جتنی کے وہ حقدار ہیں۔

ریکوڈک منصوبے کا نیا معاہدہ: بلوچستان کی ایک چھوٹے شراکت دار کی حیثیت

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے زر ولی نے کہا، ''یہاں زندگی بہت مشکل ہے۔ یوں سمجھیے کہ ہم ہر روز کام کے لیے موت کی وادی میں جاتے ہیں۔ روزانہ تین سے چار ہزار فٹ کی گہرائی میں جا کر کام کرتے ہیں۔ کان کے اندر حفاظتی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہر شخص اپنی مدد آپ کے تحت کام کر کے باہر آتا ہے۔ اکثر حادثات بھی پیش آتے ہیں۔ کان کے مالکان اور حکومتی اہلکار صرف دعوے کر کے چلے جاتے ہیں اور مزدوروں کی مشکلات کے حل پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔‘‘

بلوچستان میں کوئلے کی 2600 سے زیادہ کانوں میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق کوئلے کے ذخائر کا حجم 25 کروڑ ٹن سے زائد بنتا ہےتصویر: A. G. Kakar/DW

زر ولی کا کہنا تھا کہ مقامی کوئلہ کانوں کے اندر رابطے کے لیے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کوئی سہولت میسر  نہیں۔ اس لیے وہاں کام کرنے والے مزدور اکثر وہاں پیش آنے والے حادثات کی بروقت اطلاع بھی نہیں دے پاتے۔

کوئلے کی کانیں اور پاکستان کے مزدور بچے

انہوں نے بتایا، ''صورت حال اتنی خراب ہے کہ کان کنوں کی جانیں اکثر اس لیے چلی جاتی ہیں کہ انہیں کان کے اندر کے حالات کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ گیس بھر جانے سے بعض اوقات ان کانوں کے اندرونی حصے منہدم ہو جاتے ہیں۔ ہم نے کئی بار مقامی انچارج سے شکایت بھی کی، لیکن مزدوری کی سلامتی کی صورت حال بہتر نہ ہو سکی۔ وہ اس سارے معاملے کو ہی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایسی شکایات کرنے پر بعض اوقات تو مزدوروں کو کام ہی سے فارغ بھی کر دیا جاتا ہے۔‘‘

بلوچستان میں کوئلے کی کانیں اور جان پر کھیلتے کان کن

03:02

This browser does not support the video element.

حادثات کی روک تھام کے لیے حکومتی اقدامات کیا؟

بلوچستان میں کان کنی اور معدنیات کے صوبائی محکمے کے ایک اعلیٰ اہلکار، جاوید احمد کہتے ہیں کہ رہنما اصولوں اور سیفٹی پروٹوکول پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث کان کنی کی صنعت میں مزدوروں کو جان کے شدید خطرات لاحق رہتے ہیں۔

بلوچستان: کان کنوں کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے؟

اس اہلکار نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ''صوبے کی کانوں میں جو حادثات پیش آتے ہیں، ان کی روک تھام کے لیے ہمارے محکمے نے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ ضرورت ایک ایسے طریقہ کار کی ہے، جس کی مدد سے کان کنوں کو محفوظ ماحول مہیا کیا جا سکے ۔ ملک میں 1923ء کے ایک قانون کے تحت کان مالکان کی جن ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے، ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم نے ایسے کارکنوں کی لیبر یونین سے بھی کہا ہے کہ وہ اس ضمن میں شکایات کے لیے ہم سے رابطے میں رہیں۔ لیکن خود ہمیں بھی اکثر مسائل کا بروقت علم نہیں ہو پاتا۔‘‘

کوئٹہ اور بولان سمیت صوبے کے شمال مشرقی علاقوں دکی، چمالانگ، لورالائی اور ہرنائی میں واقع کانوں سے نکلنے والا کوئلہ پاکستان کا بہترین کوئلہ سمجھا جاتا ہےتصویر: A. G. Kakar/DW

جاوید احمد کا کہنا تھا کہ کوئلے کی کانوں میں زیادہ تر حادثات میتھین گیس کی وجہ سے پیش آتے ہیں، جن کے تدارک کی خاطر مالکان ان کانوں میں ہوا کے گزر یا وینٹیلیشن پر کافی توجہ نہیں دیتے۔

بلوچستان میں کان کنی: ہماری شرکت کے بغیر نہیں، کوئٹہ حکومت

صوبائی محکمہ کان کنی اور معدینات کے اس اہلکار نے مزید بتایا، ''ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ جب کوئلے کی کسی کان میں گیس بھر جاتی ہے، تو وہاں پھنسے کارکنوں کو نکالنے کے لیے دیگر کان کن بھی مناسب حفاظتی انتظامات کے بغیر ہی ان کانوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یوں وہ بھی اس گیس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بہت سی کانوں میں تو مزدور تین سے چار ہزار فٹ تک کی گہرائی میں جا کر کام کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کارکن ضروری ہدایات پر سختی سے عمل کریں اور حکام کو اپنے خدشات سے آگاہ بھی کرتے رہیں۔‘‘

بہت سے کان کن کام کرنے کے لیے تین سے چار ہزار فٹ تک کی گہرائی میں جاتے ہیںتصویر: A. G. Kakar/DW

کان کنوں کی مزدور یونین کا موقف

کوئلے کی کانوں میں پیش آنے والے حادثات کی روک تھام کے لیے حکومتی اور نجی سطح پر کیے گئے اقدامات کو مائن لیبر یونین قطعی ناکافی قرار دیتے ہوئے ان پر کڑی تنقید بھی کرتی ہے۔ بلوچستان مائن لیبر یونین کے رہنما شوکت علی کہتے ہیں کہ حکومتی غفلت کے باعث کوئلے کی کانوں کے مالکان مزدوروں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔

ہزاروں فٹ گہرائی میں کان کنی، دیہاڑی صرف چھ سو روپے

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان پاکستان کا وہ واحد صوبہ ہے، جہاں کوئی بھی ادارہ اپنی ذمہ داریوں کے تعین کے لیے تیار نہیں۔ کان کنی کی صنعت جس بدحالی کا شکار ہے، اس پر دانستہ کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ کوئلے کی کانوں میں مزدوروں کی جانوں کو جو خطرات لاحق ہیں، ان میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، مگر ان کو ختم ابھی تک نہیں کیا گیا۔ آئے دن پیش آنے والے حادثات کی ذمہ داری حکومت اور کانوں کے مالکان دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ ہم نے یہ مسئلہ بار بار اٹھایا لیکن اسے حل آج تک نہیں کیا گیا۔‘‘

شوکت علی کے بقول پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن نے نومبر 2022ء میں بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں کارکنوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق حقائق کا تعین کرتے ہوئے جو رپورٹ جاری کی تھی، آج تک تو حکومت نے اس پر بھی کوئی توجہ نہیں دی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں