بلوچستان، نواز شریف کا زلزلہ زدہ علاقوں کا دورہ
8 نومبر 2013پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی جمعے کو زلزلہ متاثرین کے شکایات کے ازالے کے لیے ضلع آواران کا دورہ کیا اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ہمراہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ لیا۔ بعد ازاں علاقے کے عمائدین سے گفتگو کے دوران وزیر اعظم نے زلزلے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کے لیے مالی امداد کا اعلان بھی کیا۔
نواز شریف نے کہا کہ حکومت ضلع آواران کو ایک ماڈل ضلع بنانے کے لیے فوری اقدامات شروع کرے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ بلوچستان کے جو لوگ بھٹک گئے ہیں ان کو کہتا ہوں اس قسم کی لڑائی میں کچھ نہیں، صبح کا بھولا اگرشام کو گھر واپس آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے، ہتھیاراٹھانے والے ہتھیار پھینک دیں، قومی دھارے میں شامل ہوجائیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے بھائی ہیں، اس لیے وہ اپنے علاقوں میں حالات کی بہتری کے لیے حکومت کا ساتھ دیں۔‘‘
بلوچستان کے زلزلے سے متاثرہ قلات ڈویزن کے جنوب مغربی پسماندہ ضلع آواران تحصیل مشکے اور ضلع کیچ کے دورافتادہ علاقوں میں زلزلہ متاثرین کو فوری امداد کی فراہمی کے لیے حکومتی سطح پر یوں تو کئی دعوے سامنے آئے ہیں اور ریلیف کے کاموں میں مصروف سرکاری ٹیموں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ امدادی آپریشن کے پہلے مراحل کامیابی سے طے ہو گئے ہیں۔
تاہم حقیقی صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ پسماندگی سے دوچار ان اضلاع میں اب بھی کئی دیہات ایسے ہیں، جہاں متاثرین کی مدد تو درکنار وہاں ریلیف آپریشن بھی اب تک شروع نہیں ہو سکا ہے، جس کی ایک وجہ جہاں ان علاقوں کے دشوارگزار راستے ہیں تو وہیں ایک اور اہم رکاوٹ وہ سکیورٹی خدشات بھی ہیں، جن کے باعث اب تک وہاں امدادی ٹیموں کی رسائی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔
پاکستان کے نیشنل ڈایزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ میجر جنرل محمد سعید حلیم کا کہنا ہے کہ آواران اور زلزلے سے متاثرہ بعض دیگر علاقوں میں وہاں کے مخصوص حالات کی وجہ سے ریلیف کے کاموں میں دشواریاں حائل ہیں تاہم انہیں جلد دور کر لیا جائے گا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا، ’’ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے، جو بھی ہمیں چاہیے، وہ ہم استعمال کریں گے۔ صرف ان علاقوں کے جو مخصوص حالات ہیں اس کی وجہ سے ہمیں ریلیف کے کاموں کے لیے تھوڑا لمبا راستہ استعمال کرنا پڑتا ہے مگر یہ جو دشواریاں ہیں بہت جلد دور ہو جائیں گی۔‘‘
زلزلے سے متاثرہ ان علاقوں میں بلوچ علیحدگی پسند کالعدم تنظیموں کے حملوں کی وجہ سے متاثرین زلزلہ کو اب تک امداد سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں فراہم کی جاتی رہی ہے اور متاثرہ علاقوں میں نجی سطح پر ٹیموں کو اب تک زلزہ متاثرین کو براہ راست امداد کی فراہمی کی اجازت نہیں ملی ہے۔