1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: پاک افغان سرحدی تنازعہ، شدید فائرنگ کا تبادلہ

14 اکتوبر 2018

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں چمن کے قریب پاکستانی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے مابین سرحد پر باڑ لگانے کے تنازعے پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔

Pakistan Grenzzwischenfall bei Quetta
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

دوطرفہ فائرنگ کے باعث سرحد کے دونوں اطراف کشیدگی پھیل گئی ہے اور پاکستان نے پاک افغام دوستی گیٹ کو بھی بند کر دیا ہے۔

دوستی گیٹ کی بندش کے سبب پاک افغان سرحد پر پیدل آمد و رفت بھی رک گئی ہے اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرز کو پاکستانی حدود میں روک لیا گیا ہے۔ پاکستانی سکیورٹی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کی طرف سے فائرنگ کا سسلسلہ اس وقت شروع ہوا جب پاکستانی اہلکار سرحد پر پاکستانی حدود میں باڑ لگانے میں مصروف تھے۔

دو طرفہ فائرنگ کے باعث سرحدی علاقوں میں جانی اور مالی نقصان کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے تاہم اب تک پاکستان نے یہ تصدیق نہیں کی ہے کہ اس فائرنگ سے کس حد تک جانی یا مالی نقصان ہوا ہے۔

سرحد پر فائرنگ کے بعد دونوں اطراف سے فورسز کی بھاری نفری ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہو گئی اور بڑے پیمانے پر جنگی ساز و سامان بھی سرحد پر پہنچایا جا رہا ہے۔

کوئٹہ میں تعینات محکمہ داخلہ کے ایک سینیئر اہلکار ، نبیل داؤد کے بقول پاک افغان سرحد پر تازہ جھڑپوں کی وجہ سے مقامی آبادی کو سرحد سے دور منتقل ہونے کا کہا گیا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ''ہمارے اہلکار اپنی حدود میں سرحد پر باڑ لگانے  میں مصروف تھے۔ اس دوران تنگہ درہ کے مقام پر مخالف سمت سے اچانک بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ شروع ہوئی۔ جس کے رد عمل میں جوابی کارروائی کی گئی۔ اس فائرنگ کے بعد سرحد پر سکیورٹی غیر معمولی طور پر بڑھا دی گئی ہے۔  ہم اپنی حدود میں سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے وہاں باڑ لگا رہے ہیں لیکن افغانستان کی جانب سے اس ضمن میں مخالفت سامنے آ رہی ہے۔ ہمیں اس امر پر افسوس ہے کہ افغان حکام معاملے کی سنگینی کو سمجھنے کی بجائے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

کشیدگی کے خلاف سرحد کے دونوں طرف آباد قبائل کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیاتصویر: DW/A. Ghani Kakar

نبیل داؤد نے کہا کہ سرحد محفوظ ہونے سے پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کی سلامتی پر بھی بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کے بقول، ’’افغانستان ہمارا اہم ہمسایہ اوردوست ملک ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ وہاں حالات خراب ہوں۔ افغان فورسز کی بلاجواز فائرنگ دو طرفہ تعلقات کو خراب کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ہمیں امید ہے کے کابل میں اس معاملے کا سختی سے نوٹس لیا جائے گا۔‘‘

پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے پر افغاں حکام کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ افغان میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق افغانستان کے صوبہ قندہار کی پولیس کے سربراہ عبدالرازق ادوزئی نے کہا ہے کہ چمن سے ملحقہ صوبہ قندہار کے ضلع شورابک اور دیگر افغان علاقوں سے ملحقہ پاکستانی سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

ان رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ افغان بارڈر سیکیورٹی اہلکاروں اور پاکستانی فورسز کے درمیان فائرنگ اس لیے شروع ہوئی کیوں کہ منع کرنے کے  باوجود پاکستانی اہلکار سرحد پر باڑ نصب کر رہے تھے۔

افغان میڈیا کے مطابق افغان حکام نے سرحد پر باڑ لگانے کو سرحدی علاقوں کے قبائل میں موجود رشتوں پر اثر انداز ہونے کے ایک قدم سے تعبیر کیا ہے۔ کوئٹہ میں موجودہ افغان امور کے ماہر احمد ولی دولتزئی کے بقول پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے سے قبل پاکستان کو مذاکرات کے ذریعے افغانستان کے تحفظات دور کرنے چاہییں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ڈیورنڈ لائن پر بچھنے والی باڑ پر افغانستان کو تحفظات ہیں اس لیے اس عمل کے خلاف شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیوں کہ معمولی سے غلطی دو طرفہ تعلقات میں مزید دراڑیں پیدا کر سکتی ہے۔ افغانستان نے باڑ لگانے کے عمل پر جو موقف واضح کیا ہے وہ اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ سرحد پر آباد قبائل یہ نہیں چاہتے کہ ان کو ایک دوسرے سے دور کیا جائے۔ باڑ لگنے سے نہ صرف ان قبائل میں دوریاں پیدا ہوں گی بلکہ صدیوں پر محیط ان کے رشتے  بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔ پاکستان کو چاہیے کہ مذاکرات کے ذریعے اس معاملے کا ایک پائیدار حل تلاش کرے۔‘‘

احمد ولی دولتزئی کا کہنا تھا کہ خطے میں سلامتی کے لیے باہمی تعاون تمام ہمسایہ ممالک کے درمیاں ریڑھ کی ہڈی کی حیثٰت رکھتا ہے ۔ اس لیے موجودہ حالات میں نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان بھی ایسی کسی صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا، جس سے یہاں شورش میں اضافہ ہو۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے دولتزئی کا مزید کہنا تھا، ’’غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمشیہ متاثر ہوتے رہے ہیں۔ اس کیفیت میں دونوں ممالک کو زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ حکومتی فیصلوں سے عوام کس حد تک متاثر ہو تے ہیں۔‘‘

سرحد پر آباد قبائل پریشان

پاک افغان سرحد پر دو طرفہ فائرنگ کے بعد پھیلنے والی کشیدگی کے خلاف سرحد کے دونوں طرف آباد قبائل کی جانب سے احتجاج بھی شروع ہو گیا ہے۔

بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں مشتعل مظاہرین نے سرحد پر فائرنگ کے واقعے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے احتجاجی ریلی بھی نکالی جس میں شہریوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

ریلی کے شرکاء کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے واقعات سے ان کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے اور قبائل عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ذرائع کے مطابق سرحد پر حالات تاحال کشیدہ ہیں اور وقفے وقفے سے فائرنگ کی اطلاعات اب بھی موصول ہو رہی ہیں۔

پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے تنازعے پر گزشتہ سال بھی پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ان جھڑپوں میں بھاری جانی اور مالی  نقصانات کے بعد 21 یوم تک پاک افغان سرحد بند رکھی گئی تھی۔

سرحد کی بندش سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے منسلک تاجروں کو بھی کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں