پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں چمن کے قریب پاکستانی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے مابین سرحد پر باڑ لگانے کے تنازعے پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔
اشتہار
دوطرفہ فائرنگ کے باعث سرحد کے دونوں اطراف کشیدگی پھیل گئی ہے اور پاکستان نے پاک افغام دوستی گیٹ کو بھی بند کر دیا ہے۔
دوستی گیٹ کی بندش کے سبب پاک افغان سرحد پر پیدل آمد و رفت بھی رک گئی ہے اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرز کو پاکستانی حدود میں روک لیا گیا ہے۔ پاکستانی سکیورٹی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کی طرف سے فائرنگ کا سسلسلہ اس وقت شروع ہوا جب پاکستانی اہلکار سرحد پر پاکستانی حدود میں باڑ لگانے میں مصروف تھے۔
دو طرفہ فائرنگ کے باعث سرحدی علاقوں میں جانی اور مالی نقصان کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے تاہم اب تک پاکستان نے یہ تصدیق نہیں کی ہے کہ اس فائرنگ سے کس حد تک جانی یا مالی نقصان ہوا ہے۔
سرحد پر فائرنگ کے بعد دونوں اطراف سے فورسز کی بھاری نفری ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہو گئی اور بڑے پیمانے پر جنگی ساز و سامان بھی سرحد پر پہنچایا جا رہا ہے۔
کوئٹہ میں تعینات محکمہ داخلہ کے ایک سینیئر اہلکار ، نبیل داؤد کے بقول پاک افغان سرحد پر تازہ جھڑپوں کی وجہ سے مقامی آبادی کو سرحد سے دور منتقل ہونے کا کہا گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ''ہمارے اہلکار اپنی حدود میں سرحد پر باڑ لگانے میں مصروف تھے۔ اس دوران تنگہ درہ کے مقام پر مخالف سمت سے اچانک بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ شروع ہوئی۔ جس کے رد عمل میں جوابی کارروائی کی گئی۔ اس فائرنگ کے بعد سرحد پر سکیورٹی غیر معمولی طور پر بڑھا دی گئی ہے۔ ہم اپنی حدود میں سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے وہاں باڑ لگا رہے ہیں لیکن افغانستان کی جانب سے اس ضمن میں مخالفت سامنے آ رہی ہے۔ ہمیں اس امر پر افسوس ہے کہ افغان حکام معاملے کی سنگینی کو سمجھنے کی بجائے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
نبیل داؤد نے کہا کہ سرحد محفوظ ہونے سے پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کی سلامتی پر بھی بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کے بقول، ’’افغانستان ہمارا اہم ہمسایہ اوردوست ملک ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ وہاں حالات خراب ہوں۔ افغان فورسز کی بلاجواز فائرنگ دو طرفہ تعلقات کو خراب کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ہمیں امید ہے کے کابل میں اس معاملے کا سختی سے نوٹس لیا جائے گا۔‘‘
پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے پر افغاں حکام کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ افغان میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق افغانستان کے صوبہ قندہار کی پولیس کے سربراہ عبدالرازق ادوزئی نے کہا ہے کہ چمن سے ملحقہ صوبہ قندہار کے ضلع شورابک اور دیگر افغان علاقوں سے ملحقہ پاکستانی سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
ان رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ افغان بارڈر سیکیورٹی اہلکاروں اور پاکستانی فورسز کے درمیان فائرنگ اس لیے شروع ہوئی کیوں کہ منع کرنے کے باوجود پاکستانی اہلکار سرحد پر باڑ نصب کر رہے تھے۔
افغان میڈیا کے مطابق افغان حکام نے سرحد پر باڑ لگانے کو سرحدی علاقوں کے قبائل میں موجود رشتوں پر اثر انداز ہونے کے ایک قدم سے تعبیر کیا ہے۔ کوئٹہ میں موجودہ افغان امور کے ماہر احمد ولی دولتزئی کے بقول پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے سے قبل پاکستان کو مذاکرات کے ذریعے افغانستان کے تحفظات دور کرنے چاہییں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ڈیورنڈ لائن پر بچھنے والی باڑ پر افغانستان کو تحفظات ہیں اس لیے اس عمل کے خلاف شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیوں کہ معمولی سے غلطی دو طرفہ تعلقات میں مزید دراڑیں پیدا کر سکتی ہے۔ افغانستان نے باڑ لگانے کے عمل پر جو موقف واضح کیا ہے وہ اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ سرحد پر آباد قبائل یہ نہیں چاہتے کہ ان کو ایک دوسرے سے دور کیا جائے۔ باڑ لگنے سے نہ صرف ان قبائل میں دوریاں پیدا ہوں گی بلکہ صدیوں پر محیط ان کے رشتے بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔ پاکستان کو چاہیے کہ مذاکرات کے ذریعے اس معاملے کا ایک پائیدار حل تلاش کرے۔‘‘
طورخم کی پاک افغان سرحدی گزرگاہ کی بندش
پاکستان اور افغانستان کے مابین طورخم کی سرحدی گزرگاہ پر پاکستانی حکام کی طرف سے خار دار باڑ لگانے کے تنازعے کے باعث یہ بارڈر کراسنگ گزشتہ کئی دنوں سے بند ہے، جس کی وجہ سے سرحد پار آمد و رفت اور مال برداری بھی معطل ہے۔
تصویر: DW/D.Baber
سرحد کی طرف رواں
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سامان کی مال برداری کا ایک بہت بڑا حصہ طورخم کی سرحد کے ذریعے ہی عمل میں آتا ہے۔ اس تصویر میں بہت سے ٹرک اور ٹرالر طورخم کی طرف جاتے دیکھے جا سکتے ہیں لیکن ایسی ہزاروں مال بردار گاڑیاں پہلے ہی کئی دنوں سے اس شاہراہ پر بارڈر دوبارہ کھلنے کے انتظار میں ہیں۔
تصویر: DW/D.Baber
باب خیبر
طورخم بارڈر پر پاکستانی حکام کی طرف سے سرحد کے ساتھ پاکستانی علاقے میں خار دار باڑ لگانے کے منصوبے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعے کے حل کے لیے اسی ہفتے خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ اور خیبر رائفلز کے کمانڈنٹ کی افغان پولیس کے کمانڈر سے بات چیت بھی ہوئی لیکن اطرف کے مابین کوئی اتفاق رائے نہ ہو سکا۔
تصویر: DW/D.Baber
بندش کا مطلب تجارتی جمود
پاکستان افغان سرحد کی بندش سے متعلق تنازعے کا سب سے زیادہ نقصان دونوں ملکوں کے مابین تجارت کو بھی پہنچ رہا ہے اور ان ڈارئیوروں کو بھی جو پچھلے کئی دنوں سے انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
تصویر: DW/D.Baber
بارڈر کھلنے کا انتظار
طورخم بارڈر کی بندش کے باعث اس سرحدی گزر گاہ کو جانے والی شاہراہ پر دونوں طرف ہزاروں کی تعداد میں کئی طرح کے تجارتی سامان سے لدی گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں، جن کے ڈرائیور اس انتظار میں ہیں کہ بارڈر کھلے تو وہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔
تصویر: DW/D.Baber
کراچی سے کابل تک پریشانی
بارڈر کی بندش کے نتیجے میں ایک طرف اگر شاہراہ پر مال بردار گاڑیوں کی کئی کئی کلومیٹر طویل قطاریں نظر آتی ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں کراچی سے لے کر افغانستان میں کابل تک ہزاروں تاجر بھی اس لیے پریشان ہیں کہ یہ صورت حال اب تک ان کے لیے کروڑوں کے نقصان کا سبب بن چکی ہے۔
تصویر: DW/D.Baber
کئی دنوں سے بھوکے ڈرائیور
سرحد کی بندش کے باعث مال بردار گاڑیوں کے ہزاروں ڈرائیوروں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ وہ اپنی گاڑیوں کو چھوڑ کر کہیں جا نہیں سکتے اور جہاں وہ ہیں، وہاں انہیں معمول کی خوراک دستیاب نہیں۔ ایسے میں انہیں سڑک کنارے بیچی جانے والی اشیاء اور کچھ پھل وغیرہ خرید کر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: DW/D.Baber
گرمی میں پیاس
مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے پاس ان کی گاڑیوں میں عام طور پر اشیائے خوراک یا مشروبات کا کوئی ذخیرہ نہیں ہوتا۔ ایسے میں شدید گرمی میں اگر ممکن ہو سکے تو وہ اپنی پیاس چائے پی کر بجھا لیتے ہیں۔ اس تصویر میں اپنے ٹرک کے نیچے بیٹھے دو افراد اپنے لیے چائے بنا رہے ہیں۔
تصویر: DW/D.Baber
گرمی میں ٹرک کا سایہ بھی غنیمت
پاکستان سے روزانہ بے شمار ٹرک اور ٹرالر تجارتی اور تعمیراتی سامان کے ساتھ ساتھ تازہ پھل اور سبزیاں لے کر افغانستان جاتے ہیں۔ کئی ڈرائیوروں کو خدشہ ہے کہ طورخم کی سرحد کی بندش اب دنوں سے نکل کر ہفتوں کی بات بن سکتی ہے۔ اس تصویر میں محض انتظار کرنے پر مجبور ایک ٹرک ڈرائیور اور اس کا ساتھی دوپہر کی گرمی میں سستانے کے لیے اپنے ٹرک کے نیچے زمین پر سو رہے ہیں۔
تصویر: DW/D.Baber
8 تصاویر1 | 8
احمد ولی دولتزئی کا کہنا تھا کہ خطے میں سلامتی کے لیے باہمی تعاون تمام ہمسایہ ممالک کے درمیاں ریڑھ کی ہڈی کی حیثٰت رکھتا ہے ۔ اس لیے موجودہ حالات میں نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان بھی ایسی کسی صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا، جس سے یہاں شورش میں اضافہ ہو۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے دولتزئی کا مزید کہنا تھا، ’’غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمشیہ متاثر ہوتے رہے ہیں۔ اس کیفیت میں دونوں ممالک کو زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ حکومتی فیصلوں سے عوام کس حد تک متاثر ہو تے ہیں۔‘‘
سرحد پر آباد قبائل پریشان
پاک افغان سرحد پر دو طرفہ فائرنگ کے بعد پھیلنے والی کشیدگی کے خلاف سرحد کے دونوں طرف آباد قبائل کی جانب سے احتجاج بھی شروع ہو گیا ہے۔
بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں مشتعل مظاہرین نے سرحد پر فائرنگ کے واقعے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے احتجاجی ریلی بھی نکالی جس میں شہریوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
ریلی کے شرکاء کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے واقعات سے ان کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے اور قبائل عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ذرائع کے مطابق سرحد پر حالات تاحال کشیدہ ہیں اور وقفے وقفے سے فائرنگ کی اطلاعات اب بھی موصول ہو رہی ہیں۔
پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے تنازعے پر گزشتہ سال بھی پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ان جھڑپوں میں بھاری جانی اور مالی نقصانات کے بعد 21 یوم تک پاک افغان سرحد بند رکھی گئی تھی۔
سرحد کی بندش سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے منسلک تاجروں کو بھی کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا تھا۔
کابل کی شدید سردی، وطن لوٹنے والے مہاجرین مشکل میں
نارویجین ریفیوجی کونسل کے مطابق سن 2016 میں اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور پندرہ ہزار افغان شہریوں نے کابل میں رہائش اختیار کی۔ ان میں سے اکثر افغان خاندان انتہائی برے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
کابل میں پچاس سے زائد ایسی بستیاں قائم ہیں
تھنک ٹینک ’سیمیول ہال‘ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کابل میں پچاس سے زائد ایسی بستیاں قائم ہیں جہاں اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے والے افغان شہری یا پاکستان اور دیگر ممالک سے واپس آنے والے افغان مہاجرین نے رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
پاکستان سے چھ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین افغانستان لوٹے
سن 2016 میں پاکستان سے چھ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین افغانستان لوٹے۔ عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن اور رضا کارانہ طور پر واپس جانے والے مہاجرین کو دی جانے والی رقم میں دوگنا اضافے کے باعث مہاجرین کی واپسی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: DW/F. U. Khan
انتہائی برے حالات
’سیمیول ہال‘ کے سروے کے مطابق کابل اور اس کے گرد و نواح میں قائم بستیوں میں اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے والے افغان شہری یا پاکستان اور دیگر ممالک سے واپس آنے والے افغان مہاجرین انتہائی برے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اوسطاﹰ ہر خاندان کی ماہانہ آمدنی 6855 افغانی ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
سوکھی گھاس کا استعمال
کابل کی ایک بستی میں افغان خاندان برفانی سردی سے بچنے کے لیے سوکھی گھاس استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان سے افغانستان واپس آنے والے بہت سے خاندانوں کو خوراک، گرم کپڑوں اور مناسب رہائش کی کمی کا سامنا ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
شالے خان کا خاندان
ستر سالہ شالے خان 1980 کی دہائی میں افغانستان کو چھوڑ کر پاکستان چلے گئے تھے۔ ساڑھے تین ماہ قبل شالے خان اور ان کے پوتے پوتیاں پاکستان سے خالی ہاتھ افغانستان پہنچے تھے۔ نارویجین ریفیوجی کونسل نے شالے خان کے خاندان کے لیے ایک گھر تعمیر کیا ہے۔ اب کابل کی شدید سردی میں ان کے پاس رہائش کا مناسب انتظام ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
سردی نے مشکلات بڑھا دیں
ایک نوجوان لڑکا امدادی ادارے کی جانب سے دیے جانے والے پمپ کی مدد سے پانی نکال رہا ہے۔ آس پاس کئی افغان مہاجرین اور اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے والے افغان شہری رہائش پذیر ہیں۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
گرم پانی کی کمی
افغانستان کے صوبے وردک سے نقل مکانی کرنے والی ایک افغان خاتون کابل کے نواح میں برف کے پانی سے کپڑے دھو رہی ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
کابل میں برف باری
اس ہفتے برف باری نے کابل شہر کو برف سے ڈھک دیا ہے۔ برف باری اور شدید ٹھنڈ نے افغان شہریوں کی مشکل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
مہاجرین بچے
اپنے وطن واپس پہنچنے والے یہ مہاجرین بچے برف میں کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ نارویجین ریفیوجی کونسل کی جانب سے ان بچوں کو کمبل، گرم لباس اور جوتے فراہم کیے گئے تھے۔ تاہم اس ادارے کا کہنا ہے کہ کابل میں اب بھی کئی خاندانوں کو سردی کے موسم کے لیے امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
مسکراتے چہرے
سات سالہ بی بی ہوا اور ایک سالہ شکریہ کیمرے کو دیکھ کر مسکرا رہی ہیں۔ بی بی ہوا کو سردی سے بچاؤ کے لیے مناسب خوراک اور لکٹری یا گیس کے ہیٹر کی ضرورت ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
خوراک کی کمی
پاکستان سے اپنے وطن لوٹنے والی ان افغان خواتین کا کہنا ہے کہ ان کو مناسب مقدار میں خوراک میسر نہیں ہے۔ یہ اور ان کے اہل خانہ دو وقت ہی کھانا کھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس نہ ہی کوئلہ ہے اور نہ ہی لکڑی اس لیے وہ آگ جلا کر اپنے بچوں کو سردی سے نہیں بچا سکتیں۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
شائمہ اور عائشہ
ایک سالہ شائمہ اور آٹھ سالہ بی بی عائشہ امدادی ادارے کی جانب سے تعمیر کیے گئے گھر کے باہر کھڑی ہیں۔ کئی دہائیوں تک پاکستان میں رہنے والا ان کا خاندان آٹھ ماہ قبل افغانستان پہنچا تھا۔