1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: پنجاب جانے والی بسوں پر حملے، 13 افراد ہلاک متعدد لاپتہ

عبدالغنی کاکڑ6 اگست 2013

پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان کے علاقے مچھ میں بلوچ علیحدگی پسندوں نے کوئٹہ سے پنجاب جانے والی مسافر بسوں پر حملے کر کے 13 مسافروں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا ہے، جب کہ متعدد مسافر اب بھی لاپتہ ہیں۔

تصویر: DW/Abdul Ghani Kakar

حملے کی ذمہ داری بلوچستان کی آزادی کی جنگ لڑنے والی کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نامی تنظیم نے قبول کی ہے اور تنظیم کے ترجمان نے اس حملے کو لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کے قتل، اغواء اور بلوچ علاقوں میں ہونے والے مبینہ آپریشن کا رد عمل قرار دیا ہے۔

مچھ پولیس کے ایک سینیئر اہلکار جاوید احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مسافر بسوں پر حملے اس وقت کیے گئے، جب پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد عید کی چھٹیاں منانے کے لئےکوئٹہ سے پنجاب کے مختلف علاقوں میں ان مسافر بسوں میں گھروں کو جا رہے تھے۔ ان کا مذید کہنا تھا، ’بلوچ عسکریت پسندوں نے مچھ کے علاقے جیتانی میں 3 مسا فر بسوں پر حملہ کیا، اس وقت ان بسوں میں سو سے زائد افراد سوار تھے۔ 20 سے زائد مسلح حملہ آوروں نے اسلحے کے زور پر تینوں بسوں کو روکنے کے بعد مسافروں کے شناختی کارڈز چیک کئے اور13 افراد کو بسوں سے اتار کر اغواء کر لیا، جنہیں بعد میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا اور ان کی لاشیں ایک پہاڑ کے دامن میں پھینک دی گئیں جب کہ ان بسوں میں سوارمتعدد دیگر افراد اب تک لاپتہ ہیں اور خدشہ ہے کہ انہیں بھی اغواء کر لیا گیا ہے۔‘

محکمہء داخلہ کے ذرائع کے مطابق واقعے کے بعد سیکورٹی فورسز نے علاقے کی ناکہ بندی کر کے وہاں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے اور اس آپریشن کے دوران مچھ کے پہاڑی علاقے میں عسکریت پسندوں کے ساتھ سیکورٹی فورسز کا فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا ہے، جس کے نتیجے میں ایک اور اہلکار محمد گل ہلاک ہو گیا۔ کارروائی کے دوران اب تک 19 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن کے قبضے سے اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔

مچھ کےعلاقے میں پیر کو بھی بجلی کی مین ٹرانسمیشن لائن کے چار کھبوں کو شرپسندوں نے دھماکہ خیز مواد سے اڑا د یا تھا، جس کی وجہ سے صوبے کے 15 اضلاع کو بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی تھی۔

بولان کے علاقے مچھ اور ملحقہ علاقوں کو بلوچ عسکریت پسندوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اور ان علاقوں میں قبل ازیں بھی پنجاب جانے والی ٹرینوں اور دیگر بسوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے، جن میں 30 سے زائد افراد گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں اور ان حملوں کی ذمہ داری بھی کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) نے ہی قبول کی تھی۔

صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز وِد آوٹ بارڈرز نے بھی رواں سال بلوچ مسلح تنظیموں کو اپنی اس فہرست میں شامل کر لیا تھا جو کہ آزادی صحافت کے خلاف سرگرم ہیں۔

کچھ عرصے قبل ایک حملے میں جناح ریزیڈنسی کو بھی تباہ کر دیا گیا تھاتصویر: Abdul Ghani Kakar

بلوچستان میں بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جا نب سے حکومت مخالف سرگرمیوں میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد سے اضافہ دیکھنےمیں آیا ہے اور پر تشدد کارروائیوں میں عسکریت پسندوں نے نہ صرف غیر بلوچ مقامی اور غیر مقامی افراد کو نشانہ بنایا ہے بلکہ متعدد اہم حکومتی شخصیات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران کوبھی حملوں کے دوران ہلاک کیا ہے، جن میں بلوچستان کے سابق صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمد خان، چئیرمین بلوچستان تعلیمی بورڈ ، محکمہ صحت سیکورٹی فورسز کے سینئر افسران اور بلوچستان یونیورسٹی کے اساتذہ اور سیاسی رہنماء شامل ہیں۔

بد امنی اور عدم تحفظ کی اس فضا کے باعث بلوچستان یونیورسٹی کے درجنوں سینئر اساتذہ نے صوبے میں خدمات سر انجام دینے سے بھی سابقہ دور حکومت میں معذرت ظاہر کی تھی اور حکو مت سے دیگر صوبوں میں تبادلوں کی د رخواست کی تھی، جن میں سے بعد میں متعدد کا پنجاب اور خیبر پختونخؤاء میں تبادلہ کر دیا گیا تھا۔

بلوچستان کی نئی مخلوط حکومت نے حال ہی میں عسکریت پسندی میں ملوث کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے تاہم ان تنظیموں کی جانب سے اس حکومتی پیشکش پر کوئی رد عمل اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔

بلوچ عسکری تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان سمیت ملک کے دیگر متعدد علاقوں میں سیکورٹی فورسز نے اب تک چار ہزار سے زائد بلوچ نوجوانوں، سیاسی کارکنوں اور دیگر مکتبہء فکر سے تعلق رکھنے والے بلوچ افراد کو گرفتار کیا ہے اور ان کے بقول سینکڑوں بلوچ نوجوان ریاستی اداروں کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں اور مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ بھی اب تک جاری ہے اس لئے وہ اپنی کاروائیوں میں تیزی لا رہے ہیں۔

کوئٹہ میں گزشتہ کئی سالوں سے بلوچ لاپتہ افراد افراد کے لواحقین کا ایک احتجاجی کیمپ بھی پریس کلب کوئٹہ کے باہر قائم ہے، جس کا مقصد انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی توجہ بلوچستان کے حالات کی جانب متوجہ کرانا ہے۔

تاہم مجموعی طور پر حکومتی سطح پراب تک ایسا کوئی موثر اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے جس کے باعث صوبے کے کشیدہ حالات میں بہتری واقع ہو سکے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بلوچ کالعدم عسکری تنظیموں کے خلاف سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں سخت ترین کاروائی کی گئی تھی اور اسی کارروائی کے نتیجے میں بلوچ رہنماء اکبر بگٹی ہلاک ہو گئے تھے۔

مشرف حکومت نے کوئٹہ، بولان ، سبی ، کوہلو، بارکھان، ڈیرہ بگٹی، سوئی، کرمو وڈھ، مستونگ اور دیگر علاقوں میں قائم بلوچ عسکریت پسندوں کے 30 فراری کیمپ بھی تباہ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد کچھ عرصہ تک مزاحمتی تنظیموں کی کارروائیوں میں کمی واقع ہوئی، تاہم پرویز مشرف کے استعفیٰ کے بعد 2008 کو بننے والی نئی حکومت جوں ہی قائم ہوئی صوبے میں ان کالعدم تنظیموں کی پرتشدد کارروائیوں میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا اور دیگر حملوں کے ساتھ ساتھ شر سپندوں نے سرکاری تنصیبات پر بھی تسلسل کے ساتھ حملوں کا سلسلہ جاری رکھا جس کے نتیجے میں اب تک سرکاری تنصیبات کو اربوں روپے کانقصان پہچ چکا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں