بلوچستان: چودہ افراد کو بس سے اتار کر گولی مار دی گئی
18 اپریل 2019
پاکستانی صوبہ بلوچستان میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک بس میں سوار کم از کم چودہ افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ یہ خونریز واقعہ اورماڑہ کے ساحلی قصبے کے قریب مکران نیشنل ہائی وے پر جمعرات اٹھارہ اپریل کی صبح پیش آیا۔
اشتہار
ملک کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ ہلاک شدگان کوئٹہ سے اسی صوبے کے بندرگاہی شہر گوادر جا رہے تھے۔ بلوچستان کے صوبائی ہوم سیکرٹری حیدر علی کے مطابق حملہ آوروں نے نیم فوجی فرنٹیئر کور کے دستوں کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں
بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار دنیا کے بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ اس کوئلہ کا ایک ٹن اوپن مارکیٹ میں 10 سے 11 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ
بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقےمیں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کم اجرت
18 سالہ سید محمد مچھ کےعلاقے مارواڑ میں گزشتہ دو سالوں سے ٹرکوں میں کو ئلے کی لوڈ نگ کا کام کرتا ہے، جس سے روزانہ اسے 3 سو سے پانچ سو روپے تک مزدوری مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کان کن
بلوچستان کے علا قے مارواڑ،سورینج، ڈیگاری ،سنجدی اور چمالانگ کے کوئلہ کانوں میں سوات، کوہستان اور خیبر پختونخواء سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کانوں میں حادثات سے درجنوں کان کن ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
سہولیات کا فقدان
بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث بلوچستان میں کان کنی سے وابستہ افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے حکومتی سطح پرابھی تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ مائننگ کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی لیے ان کانوں میں حادثات کے باعث اکثر اوقات کانکن اندر پھنس جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیرین زادہ
55 سالہ شیرین زادہ سوات کے پہاڑی ضلع شانگلہ کا رہائشی ہے، جو گزشتہ 25 سالوں سے بلوچستان میں کان کنی کا کام کر رہا ہے۔ شیرین زادہ کہتے ہیں کہ کوئلے کی کانوں میں مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کی ترسیل
مزدور مجموعی طور ہر کوئلے کے ایک ٹرک کی لوڈ نگ کا معاوضہ 3 سے 4 ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں۔ یہ رقم بعد میں آپس میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ بعد میں یہ کوئلہ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ٹرک میں 28 سے 34 ٹن کوئلے گنجائش ہوتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
6 تصاویر1 | 6
حیدر علی نے اے ایف پی کو بتایا، ’’حملہ آوروں نے ان افراد کو ساحلی شاہراہ مکران نیشنل ہائے پر سفر کرنے والی ایک بس سے اتارا اور فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ ہلاک شدگان کی تعداد کم از کم بھی 14 ہے۔‘‘
فوری طور پر کسی بھی مسلح گروپ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔
حکام کا خیال ہے کہ یہ یا تو شدت پسند فرقہ ورانہ تنظیموں میں سے کسی کی کارروائی ہو سکتی ہے یا پھر اس کے پیچھے بلوچستان کے وہ مسلح علیحدگی پسند قوم پرست بھی ہو سکتے ہیں، جو صوبے میں بار بار مسلح حملے کرتے رہتے ہیں۔
اورماڑہ کے ساحلی قصبے میں یہ حملہ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں کیے گئے اس حالیہ دہشت گردانہ حملے کے صرف تقریباﹰ ایک ہفتے بعد کیا گیا ہے، جو مذہبی منافرت کی بنیاد پر کیا جانے والا ایک خود کش بم دھماکا تھا اور جس میں 20 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مرنے والوں میں سے اکثریت ہزارہ شیعہ پاکستانیوں کی تھی۔ صوبائی ہوم سیکرٹری حیدر علی کے مطابق آج کے حملے میں جو افراد ہلاک ہوئے، ان میں پاکستانی بحریہ کا ایک اہلکار اور ملکی ساحلوں کی حفاظت کرنے والے دستوں کا ایک رکن بھی شامل ہیں۔
بلوچستان کے شپ بریکنگ یارڈ میں حادثہ، 10 مزدور ہلاک
پاکستان کے صوبے بلوچستان کے کراچی سے متصل علاقے لسبیلہ میں گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں دھماکوں کے نتیجے میں دس افراد ہلاک اور 45 زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Khan
درجنوں مزدور پھنسے رہے
نیوز ایجنسی اے پی کو پولیس افسر محمد عبداللہ نے بتایا،’’ جب مزدور ایک پرانے بحری جہاز کی توڑ پھوڑ کر رہے تھے اس وقت آئل ٹینک پھٹ گیا تھا۔‘‘ ابتدائی رپورٹس کے مطابق آئل ٹینک میں دھماکہ ہونے کے بعد درجنوں مزدور پھنسے رہے جبکہ کئی مزدوروں نے اپنی زندگیاں بچانے کے لیے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Khan
قیمتی جانوں کا ضیاع
محمد عبداللہ نے اے پی کو مزید بتایا،’’ اس سانحے میں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں اور زخمی افراد کو کراچی بھجوا دیا گیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے بھی قیمتی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber
ریسکیو کا کام جاری ہے
پاکستانی انگریزی اخبار ڈان کے مطابق اب تک 30 مزدوروں کے بارے میں کوئی اطلاعات نہیں ہیں جبکہ کچھ مزدور جہاز پراب بھی پھنسے ہوئے ہیں جن کو ریسکیو کرنے کا کام جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Khan
گڈانی
گڈانی بلوچستان کا ساحلی علاقہ ہے جو کراچی کے قریب واقع ہے۔ یہ پاکستان کا واحد شپ بریکنگ یارڈ ہے اور یہاں پہلے بھی اس طرح کے حادثات پیش آتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Khan
4 تصاویر1 | 4
ایک مقامی انٹیلیجنس اہلکار کے مطابق اس بس میں سوار جن مسافروں کو اتار لیا گیا، ان کی تعداد 16 تھی اور ان میں سے صرف دو ایسے تھے، جو حملہ آوروں کی فائرنگ کا نشانہ بننے سے بچ گئے۔ اس انٹیلیجنس اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ 14 ہلاک شدگان میں سے متعدد ایسے پاکستانی شہری تھے، جن کا تعلق بلوچستان کے علاوہ دیگر صوبوں سے تھا۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی رپورٹوں کے مطابق حملہ آوروں نے فائرنگ سے قبل بس کے مسافروں کے شناختی کارڈ بھی چیک کیے تھے۔ پھر 16 افراد کو بس سے اتارا گیا، جن میں سے 14 مارے گئے۔
ٹوئٹر پر اس بارے میں پوسٹ کیے جانے والے پیغامات میں ایسی تصویریں بھی شامل ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حملہ آوروں نے مقتولین کو قتل کرنے سے قبل بس سے اتار کر ان کے ہاتھ کمر کے پیچھے باندھ دیے اور انہیں قطاروں میں کھڑا کر دیا تھا۔
م م / ا ا / اے ایف پی، ڈی پی اے
کوئٹہ بم دھماکا: ہر طرف لاشیں، خون اور آنسو
پاکستانی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے سول ہسپتال کے سامنے آج پیر آٹھ اگست کو ہونے والے ایک طاقت ور بم دھماکے میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور بیسیوں دیگر زخمی ہو گئے۔ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
دھماکے کے نتیجے وہاں موجود ؤر آنکھ پرنم نظر آئی جبکہ ہلاک ہونے والوں کے رشتہ دار اور دوست اپنے جاننے والوں کو دلاسہ دیتے اور صبر کرنے کی تلقین کرتے رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
شام اور عراق میں سرگرم عسکریت پسند تنظیم داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ وہ مقامی عسکری گروپ ہو سکتے ہیں، جو داعش کے ساتھ الحاق کا اعلان کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اس بم حملے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وکلاء اور صحافیوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی انتظامات فوری طور پر مزید بہتر بنائے جائیں۔
تصویر: Reuters/Naseer Ahmed
بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اس دھماکے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ اس بم حملے میں مقامی وکلاء اور ان کے نمائندوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
اس ہلاکت خیز بم حملے کے بعد صوبائی دارالحکومت کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے جبکہ صوبائی وزیر صحت نے اپنے ایک بیان میں ہلاک شدگان کی تعداد 93 بتائی ہے۔ اس تعداد کی دیگر ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
تصویر: Reuters/N. Ahmed
پولیس کے مطابق یہ بم دھماکا اس وقت کیا گیا جب سول ہسپتال کوئٹہ کے باہر بہت سے وکلاء جمع تھے، جن کے ایک سینئر ساتھی کو آج ہی قتل کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
پاکستانی نجی ٹی وی اداروں کے مطابق اس دھماکے میں جو کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے، ان میں 25 کے قریب وکلاء بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ ایک خودکش حملہ تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں میڈیا کے نمائندے بھی شامل ہیں۔