1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: ڈاکٹروں کے اغوا میں عسکریت پسند ملوث

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ25 اکتوبر 2013

پاکستانی صوبہ بلوچستان میں معروف ڈاکٹروں کے اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں عسکریت پسندوں کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے جس کے بعد صوبے میں سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی جانب سے جاری احتجاج میں شدت آ گئی ہے۔

تصویر: DW/A. Ghani Kakar

ہسپتالوں میں او پی ڈیز کی بندش سے دور دراز علاقوں سے انے والے مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ دوسری طرف بدھ کوکوئٹہ میں اغواء کئے گئےعوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ارباب ظآہر کاسی کے اغواء کے خلاف اے این پی کی اپیل پر گزشتہ روز بلوچستان بھر میں شٹر ڈاون ہڑتال کی گئی۔

کوئٹہ اور صوبے کے دیگر اضلاع میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران 26 معروف ڈاکٹروں کو اغواء کیا جا چکا ہے، جن میں سے بعض ڈاکٹروں کو تاوان کی عدم ادائیگی پر قتل کردیا گیا اور بعض کو عسکریت پسندوں نے کروڑوں روپے کی تاوان کی ادائیگی ہونے پر رہا کیا۔

شمالی وزیرستان کے علاقے میں تاوان کی ادائیگی کے بعد اغواء کاروں کے چنگل سے رہائی پانے والے مقامی ڈاکٹر نصر اللہ کے اہل خانہ کے مطابق حکومت نے مغوی کے بازیابی کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران مغوی کے چچازاد بھائی سیف اللہ کا کہنا تھا، ’’میرے چچا زاد بھائی نصرا للہ کو لورالائی سے اغواءکیا گیا تھا ۔ اس کارروائی کے کافی دنو ں بعد ہمیں شمالی وزیر استان سے ایک فون موصول ہوا جس میں اغواءکاروں نے ہمیں بتایا کہ نصراللہ ان کے قبضے میں ہے اور انہیں دو کروڑ روپے تاوان چاہئے ہم نے کئی ماہ کی جدو جہد کے بعد تاوان کی رقم انہیں ادا کی جس کے بعد نصراللہ کو رہا کیا گیا۔‘‘

ڈاکٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہےتصویر: DW/A. Ghani Kakar

بلوچستان سے اغواء ہونے والے کئی مغوی اب بھی عسکریت پسندوں کی قید میں ہیں، جن میں کوئٹہ کے شعبہ امراضِ قلب کے معروف ڈاکٹر مناف ترین بھی شامل ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صوبائی رہنماء ڈاکٹر سلطان کے مطابق کئی مغوی ڈاکٹروں کو اغواء کار قتل کر چکے ہیں۔

ڈی ڈبلیوسے گفتگو کے دوران ڈاکٹر سلطان کا مزید کہنا تھا،’’بہت عرصے سے اغواء کی یہ وارداتیں ہو رہی ہیں اور ہمارے کئی ڈاکٹر قتل ہو چکے ہیں، جن میں ڈاکٹر دین محمد بلوچ، ڈاکٹر اکبر مری، ڈاکٹر صالح اور دیگر کئی شامل ہیں۔‘‘

ایک اور سینیئر ڈاکٹر صدیق اللہ ترین کا اس حوالے سے کہنا تھا،’’اغواء کی ان وارداتوں کی وجہ سے پورے صوبے میں ڈپریشن کا ماحول ہے اس لیے ان حالات میں اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، چاہے وہ صوبائی سطح پر ہوں یا مرکزی سطح پر تاکہ ان واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے۔‘‘

ڈاکٹروں کی اس ہڑتال سے مریضوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس کا اندازہ آپ کو صوبے کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے مریضوں کی اس گفتگو سے ہو سکتا ہے۔ پشین سے آئے ہوئے جاوید کی والدہ کو آپریشن تھیڑ سے نکال دیا گیا،’’میری والدہ کا اپریشن ہورہا تھا، اُسے آپریشن تھیٹر سے بغیر آپریشن کے نکال دیا گیا کیونکہ ہڑتال تھی۔‘‘

ڈاکٹروں کی عدم دستیابی پر لورالائی کا خیر محمد انتہائی پریشان ہے:’’ ہم بہت پریشان ہیں۔ ہمارا مریض مر رہا ہے اور کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔‘‘

صوبے کے دور دراز حصے سے سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے کوئٹہ پہنچنے والے غلام رسول کی آواز سننے والا بھی کوئی نہیں ہے: ’’تین سو میل دور سے یہاں آئے ہیں لیکن یہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ حکومت کو ڈاکٹروں کا مسلئہ حل کرنا چاہیے۔‘‘

خیال رہے کہ بلوچستان میں گزشتہ 18 یوم سے ڈاکٹرز سرکاری ہسپتالوں میں احتجاج پر ہیں اور ان کا موقف ہے کہ جب تک انہیں تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا، ان کی یہ ہڑتال جاری رہے گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں