1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان کا سیاسی بحران، مخلوط حکومت میں دراڑیں

19 مئی 2022

قومی وسائل پر متنازعہ معاہدوں نے صوبہ بلوچستان کی موجودہ مخلوط حکومت میں پھر دراڑیں پیدا کردیں ہیں۔ صوبائی وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کوناقص طرز حکمرانی کا ردعمل قراردیا جا رہا ہے۔

Pakistan Quetta | Wahl des obersten Provinzchefs Abdul Quddus Bizinjo
تصویر: A. G. Kakar/DW

بلوچستان کے سینیئر سیاستدان اور سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کو ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان اس ملک کا وہ بد قسمت صوبہ ہے، جہاں اسٹیبلشمنٹ نے کبھی حقیقی عوامی حکومت کو قائم نہیں ہونے دیا۔ استعماری قوتیں اپنے مفادات کے لیے صوبے میں حکومتیں بناتی اور ختم کرتی ہیں۔ موجودہ مخلوط حکومت ایک مقصد کے تحت قائم کی گئی تھی۔ اب جب مقصد پورا ہوگیا ہے تو اس کے خلاف وہ عناصر پھر سے اکھٹے کیے گئے ہیں جنہوں نے سابقہ حکومت کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔"

تصویر: A. G. Kakar/DW

نظریاتی سیاست ختم ہوچکی ہے، رئیسانی

لشکری رئیسانی کاکہنا تھا کہ بلوچستان کے نام پر سیاست کرنے والے ریاستی آلہ کاروں کو صوبے کے حقیقی مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، ''بلوچستان کے وسائل لوٹنے والے صوبے کے خیرخواہ کبھی نہیں ہوسکتے۔ موجودہ وزیراعلیٰ قدوس بزنجو نے عوام کو تاریکی میں رکھ کر ریکوڈک کا سودا کیا۔ اس معاہدے کو صوبے کی حقیقی قیادت کس طرح قبول کر سکتی ہے؟  بلوچ قومی قیادت اپنے حق خودارادیت پر کبھی سودا نہیں کرے گی۔ بلوچستان میں نظریاتی سیاست ختم ہوچکی ہے، اسی لیے اقتدار تک پہنچنے کی دوڑ میں ہر کوئی مگن دکھائی دیتا ہے۔‘‘

لشکری رئیسانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے بدحالی کے ذمہ دارخود کو ترقی پسند ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر عوام نے انہیں یکسر مسترد کیا ہے۔

بلوچستان اسمبلی کی 65 نشستیں ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کی بھی 33 اراکین اسمبلی نے حمایت کی تھی۔ سابق اسپیکر اور موجودہ وزیراعلیٰ قدوس بزنجو کا تعلق بلوچستان کے شورش زدہ ضلع آواران سے ہے۔ وہ سابقہ انتخابات میں اپنے حلقے میں صرف 544 ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے۔

تحریک عدم اعتماد کو متحدہ اپوزیشن کی حمایت

اپوزیشن میں شامل بعض دیگر جماعتوں کی طرح بلوچستان عوامی پارٹی بھی مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کے اتحاد سے الگ ہوئی تھی۔ بی اے پی کے صدر جام کمال کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ قدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو متحدہ اپوزیشن کی حمایت بھی حاصل ہے۔

کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''قدوس بزنجو ہماری جماعت کے رکن ہیں۔ بطور وزیراعلیٰ جب میرے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو میں نے صوبے کے مفاد میں مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ ہمارا یہ خیال تھا کہ شاید ان کی حکومت ڈیلیور کر لے گی۔ لیکن اس حکومت نے کسی بھی شعبے میں کام نہیں کیا۔ عوامی مفاد کے منصوبے ادھورے پڑے ہیں۔ لوگوں کو ہم کیا جواب دیں گے؟ بلوچستان کو مزید کس طرح اس حالت میں چھوڑا جا سکتا ہے؟‘‘

تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کا مقصد

جام کمال کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لوگ بھوک و افلاس سے مر رہے ہیں، لیکن حکومت صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہی ہے۔ ان کے بقول، ''حکومت گرانے کا مقصد صاف واضح ہے، جن لوگوں کو عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں انہیں حکومت میں بھی نہیں رہنا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں غیر آئینی اقدامات کا تسلسل رک سکے۔ دودھ اور شہد کی نہریں کوئی نہیں بہا سکتا لیکن دیرینہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔ ہمارے اتحاد نےاس لیے تحریک عدم اعتماد جمع کی ہے تاکہ صوبے کو مزید بحرانوں سے بچایا جا سکے۔"

تصویر: picture-alliance/Zuma Press/PPI

’خدمت نہیں کی جا رہی‘

سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر اور پاکستان تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی سردار یار محمد رند کہتے ہیں موجودہ صوبائی حکومت عوامی خدمت کے بجائے جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ہمارے علاقے میں معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث ملزمان کو موجودہ حکومت تحفظ فراہم کررہی ہے۔  پی ٹی آئی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف بھی ہم نے مرکز کو کئی شکایات درج کرائی تھیں کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ قدوس بزنجو کی حکومت نے ہر جگہ کرپشن اور لاقانونیت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ عوامی نمائندے ایسے ماحول میں کس طرح عوام سے کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں؟‘‘۔ یارمحمد رند کا کہنا تھا کہ عمران خان کی بلوچستان سے متعلق پالیسی تضادات کا شکار تھی اور انہوں نے اپنے دور میں صوبے کے مفادات کو یکسر نظر انداز کر دیا تھا۔

وزراء کی برطرفی

دوسری جانب وزیراعلیٰ قدوس بزنجونے تحریک عدم اعتماد میں کردار ادا کرنے والے 2 صوبائی وزراء ایک مشیر اور 3 پارلیمانی سیکرٹریوں کو ان کے عہدوں سے برطرف کردیا ہے۔ بدھ کی شب کوئٹہ میں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے اعلامیے میں وزراء کی برطرفی کی باقاعدہ  تصدیق کی گئی۔ برطرف کیے گئے ان وزراء میں نوابزادہ طارق مگسی، مبین خلجی، صوبائی مشیر، نعمت اللہ زہری اور پارلیمانی سکریٹری، شاہینہ کاکڑ، مٹھا خان کاکڑ اور نعیم احمد بازئی شامل ہیں۔

قوم پرستوں کے تحفظات

بلوچستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے ہونے والے حالیہ معاہدوں پر بھی بلوچ قوم پرست جماعتوں نے شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ آزادی پسند بلوچ عسکری تنظیموں نے صوبے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے خلاف مسلح جدوجہد بھی تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چند یوم قبل جامعہ کراچی میں چینی اساتذہ پر ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری بھی بلوچ کالعدم تنظیم ، بی ایل اے نے قبول کی تھی۔

سازش ہو رہی ہے، فرح عظیم

کچھ دن  قبل تربت کے علاقے ہوشاب میں سکیورٹی فورسز نے ایک خاتون خودکش بمبار کی گرفتاری کا بھی دعویٰ کیا تھا۔ جان بی بی نامی خاتون خودکش بمبارکی گرفتاری کی تصدیق ترجمان حکومت بلوچستان فرح عظیم شاہ نے ایک پریس کانفرنس میں کی تھی۔ فرح عظیم شاہ کہتی ہیں کہ صوبائی مخلوط حکومت کے خلاف سازش کی جا رہی ہے جوکہ کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''دیکھیں موجودہ مخلوط حکومت نے محدود وسائل کے باوجود صوبے کو اس بحرانی صورتحال سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ غیرجمہوری قوتیں ترقی کے اس عمل کو ثبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں سے بلوچستان جس پسماندگی کا شکار رہا ہے اس سے مختصر ترین مدت میں کس طرح نمٹا جاسکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم یہ کوشش کر رہی ہے کہ بنیادی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔‘‘

فرح عظیم شاہ کا کہنا تھا کہ مخلوط حکومت میں شامل تمام اتحادیوں نے وزیراعلیٰ پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ان کے بقول،''اپوزیشن میں شامل جماعتیں بھی اس وقت وزیراعلیٰ کے ساتھ ہیں عدم اعتماد کی تحریک ایک جمہوری طریقہ ہے، جس کا وزیراعلیٰ سامنا کریں گے۔ ناقدین اپنا شوق پورا کر لیں لیکن حکومت کے خاتمے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ‘‘

واضح رہے بلوچستان میں سونے اور تانبے کے وسیع زخائر کے حامل منصوبے ریکوڈک کے حالیہ معاہدے پر بھی صوبائی حکومت کو شدید عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو صوبائی اسمبلی میں اس معاہدے سے متعلق ان کیمرہ بریفنگ بھی دی گئی تھی۔

’مرے کو مارے شاہ مدار‘ ڈیرہ بگٹی ایک اور آفت کا شکار

04:03

This browser does not support the video element.

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں