1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچوں کی جبری گم شدگیاں، اہل خانہ جواب کے منتظر

19 جولائی 2020

کوئٹہ پریس کلب کے باہر درجنوں افراد اپنے اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائے، پاکستانی ریاست سے جواب طلب کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں مسلح علیحدگی پسندی کے بعد ان واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

Pakistan Demonstration für vermisste Angehörige in Queeta
تصویر: DW/Shadi Khan Saif

پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے درجنوں افراد اپنے گم شدہ پیاروں کی تصاویر لیے جواب کی تلاش میں ہیں۔ کئی افراد نے اپنے والد، شوہر اور بیٹوں کی تصویریں اٹھا رکھی ہیں اور ان افراد کی بازیابی کے مطالبات کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر دین محمد کو 'نامعلوم افراد‘ نے اغوا کیا، تو اس کے بعد 28 جون 2009 سے روزانہ کی بنیاد پر پریس کلب کے باہر لوگ جمع ہوتے ہیں۔ لاپتا افراد کے دیگر اہل خانہ کی طرح دین محمد کے رشتے داروں کو بھی کہنا ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز، جو علیحدگی پسندوں کو نشانہ بنا رہی ہیں، وہ اس واقعے میں ملوث تھیں۔

کوئٹہ میں پریس کلب کے باہر اس احتجاج میں کبھی کبھی ایک درجن سے بھی کم افراد ہوتے ہیں اور کبھی کبھی بہت زیادہ، مگر دین محمد کی دو بیٹیاں جن کی عمریں اس واقعے کے وقت آٹھ اور دس برس تھیں، باقاعدگی سے یہاں موجود ہوتی ہیں۔

یہ آپ کی ماں، بہن اور بیٹی بھی تو ہو سکتی ہے!

اٹھائیس لاپتہ افراد کی بازیابی، لیکن کیا یہ کافی ہے؟

سمی بلوچ، جو اب 21 برس کی ہیں، نے ٹیلی فون پر خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا، ''ہمارے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں اپنے والد کی تصاویر ہوا کرتی تھیں۔ اب ہم بڑے ہو چکے ہیں، مگر اب تک ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ آیا ہمارے والد زندہ ہیں؟‘‘

کوئٹہ میں جب موسم انتہائی خراب ہوتا ہے، شدید سردی ہوتی ہے، تو بلوچ کراچی کے پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا دیے نظر آتے ہیں۔

بلوچستان میں عسکریت پسندی

بلوچستان میں زیادہ خودمختاری یا پاکستان سے علیحدگی کی مسلح تحریکیں کئی دہائیوں سے چل رہی ہیں۔ 

پاکستان اپنے روایتی حریف بھارت پر بلوچستان میں عسکریت پسندی کو ہوا دینے کا الزام عائد کرتا ہے تاہم بھارت ایسے الزامات کی تردید کرتا ہے۔

ایران اور افغانستان کی سرحد سے متصل صوبے بلوچستان میں پہاڑی اور صحرائی علاقوں ایک طویل عرصے سے عسکریت پسندی جاری ہے اور اس کی شدت میں کمی یا زیادتی نظر آتی رہتی ہے۔ 

مگر بلوچوں کی اس مستقل جدوجہد کے باوجود اس مسئلے کو بین الاقوامی توجہ کم ہی ملتی ہے۔ جون میں پاکستان اسٹاک اکسچینج پر بلوچ جنگجوؤں کے مسلح حملے نے تاہم عالمی سطح پر شہ سرخیاں ضرور بنائیں۔

منگل کو بلوچ عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں تین پاکستانی فوج ہلاک جب کہ دیگر آٹھ زخمی ہو گئے۔ تاہم اس واقعے میں ہلاک اور زخمی ہونے والی کی تعداد کے علاوہ اس پورے معاملے اور عسکریت پسندی کی وجوہات سے متعلق کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی غیرملکی صحافیوں کو بھی عموماﹰ بلوچستان جانے سے روکا جاتا ہے۔

مسلسل بڑھتی گمشدگیاں

گزشتہ برس پاکستانی فوج نے ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں لاپتا بلوچوں کے اہل خانہ سے ہم دردی کا اظہار کیا گیا تھا تاہم یہ بھی کہا گیا تھا کہ شاید بہت سے لاپتا بلوچ اصل میں عسکری پسند گروہوں میں جا شامل ہوئے ہوں۔ ''تمام لاپتا افراد کو ریاست کے کھاتے میں نہ ڈالا جائے۔‘‘

تاہم پاکستانی سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں بھی ان افراد کی گم شدگی کا مقدمہ درج کیا جانا چاہیے، تاہم حقیقت حال یہ ہے کہ متاثرہ خاندان تھانوں کے چکر لگاتے رہ جاتے ہیں اور کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جاتا جب کہ پریس کلب کے باہر بیٹھے ان مظاہرین کی بھی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

ع ت / ش ح (روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں