بلوچ عسکریت پسندوں کے حملے کا ہدف گوادر ہی کیوں؟
20 مارچ 2024گوادر میں پورٹ اتھارٹی کے کمپلیکس پر ہونے والے حملے کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں کم از کم 8 بلوچ عسکریت پسند جبکہ ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوا ہے۔ حملے میں کئی سکیورٹی اہلکاروں کی زخمی ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس گوادر کے حساس ترین حصے میں واقع ہے جہاں، پاسپورٹ آفس، الیکشن کمیشن سمیت دیگر صوبائی اور وفاقی اداروں کے دفاتر بھی واقع ہیں۔ حملے کے وقت جے پی اے کمپلیکس میں غیر ملکی شہری بھی موجود تھے۔
حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نامی تنظیم نے قبول کی ہے بلوچستان میں اعلیٰ فوجی اور سول تنصیبات پر ماضی میں ہونے والے کئی دیگر بڑے حملوں کی ذمہ داری بھی بی ایل اے مجید بریگیڈ قبول کرتی رہی ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی، چار عسکریت پسند تنظیموں کے اتحاد، بلوچ راجی آجوئی سنگر ( براس) کا حصہ ہے جو کہ 11 مئی 2019، میں گوادر میں ایک بڑے نجی ہوٹل پر ہونے والے حملے بھی ملوث تھی۔
عسکریت پسندوں کے تازہ حملے کا اصل ہدف کیا تھا ؟
گوادر میں تعینات ایک سینئر سکیورٹی اہلکار اسد ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حملہ آور گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس کے ایک انتہائی حساس حصے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے مگر انہیں بیرونی حصے میں ہی روک دیا گیا۔
انہوں نے کہا، "یہ ایک اچانک حملہ تھا جو کہ بروقت کارروائی کر کے ناکام بنا دیا گیا۔ حملہ آور جدید ہتھیاروں سے لیس تھے اور انہوں نے کمپلیکس میں داخلے کی کوشش کے دوران دستی بم بھی پھینکے۔ کافی دیر تک دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ سکیورٹی فورسز نے کلئیرنس آپریشن مکمل کرلیا ہے۔ مجموعی طور پر 8 حملہ آور اس کارروائی کے دوران ہلاک ہوئے ہیں جن کی شناخت کا عمل اس وقت جاری ہے۔"
سیکیورٹی اہلکار کا کہنا تھا کہ گوادر میں موجودہ حالات کے تناظر میں سکیورٹی ہائی الرٹ تھی اس لیے عسکریت پسندوں کے حملے کو بروقت جوابی کارروائی کے دوران ناکام بنایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا، "گوادر کی اسٹریٹیجک اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ملک دشمن قوتیں گوادر پورٹ کو غیر فعال بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ اس سے قبل یہاں غیر ملکی شہریوں پر حملوں کی بھی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ یہاں سکیورٹی کا ایک جامع مکینزم فعال ہے جس کی وجہ سے پورٹ اتھارٹی کے کمپلیکس میں امن دشمن عناصر کے داخلے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔"
جی پی اے کمپلیکس پر حملے کے وقت مقامی شہریوں نے کیا دیکھا؟
گوادر کے حساس علاقے میں حملے کے وقت اچانک شدید فائرنگ اور دھماکوں سے مقامی آبادی شدید خوف وہراس کا شکار ہوئی۔ مقامی شہری کہتے ہیں کہ دو طرفہ فائرنگ کی وجہ سے مقامی لوگ کئی گھنٹے اپنے گھروں تک محدود رہے۔
45 سالہ حمید بلوچ گوادر میں میرین ڈرائیو کے قریب واقع دیہات میں مقیم ہیں کہتے ہیں جی پی اے کمپلیکس پر حملے کے وقت کئی زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں جس سے شہر کا بڑا حصہ لرز اٹھا۔
ڈی ڈبلیو کو آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے انہوں نے کہا، "یہ ایک بہت غیر یقینی کی صورتحال تھی جی پی اے کمپلیکس کے حدود میں جوں ہی شدید فائرنگ شروع ہوئی تو علاقے کو فورسز نے گھیرے میں لے لیا۔ ہمیں یہ تو نہیں بتایا گیا کہ اصل معاملہ کیا ہے لیکن ارد گرد موجود تمام لوگوں کو وہاں سے زبردستی باہر نکال دیا گیا۔ ہم کچھ لوگ جو کہ وہاں سے گزر رہے تھے کافی دیر تک وہاں پھنسے رہے کیونکہ علاقے میں گھیراؤ کی وجہ سے متبادل راستہ بھی بند تھا۔"
حمید بلوچ کا کہنا تھا گوادر میں سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے مقامی شہریوں کی معمول کے نقل وحمل بھی شدید متاثر ہورہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، "حکومت کہتی ہے کہ گوادر بندگاہ سے صوبہ ترقی کے نئے دور میں داخل ہوگا۔ یہاں ترقی تو درکنار ہمیں ایسے حالات کا سامنا ہے کہ بعض اوقات گھر تک آنے جانے میں بھی ہمیں مشکلات پیش آتی ہیں۔ حکومت کو مقامی آبادی کے تحفظات پر بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ سی پیک کے تناظر میں اٹھائے گئے اقدامات سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔"
جی پی اے کمپلیکس پر بی ایل اے نے حملہ کیوں کیا؟
گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر حملے میں ملوث بی ایل اے نے دعویٰ کیا ہے کہ کمپلیکس پر حملہ بلوچ قومی وسائل کی دفاع کے لیے کیا گیا ہے اور اس نوعیت کے حملوں کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔
کوئٹہ میں جاری کیے گئے ایک بیان میں کالعدم تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ گوادر میں تازہ حملے میں پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔
دعوے میں مزید کہا گیا ہے، "مجید بریگیڈ کے فدائین نے پورٹ اتھارٹی کے کمپلیکس میں قائم آئی ایس آئی اور ایم آئی کے دفاتر کو نشانہ بنایا ہے جس سے ریاستی اداروں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ پاکستانی ریاست صوبے کے وسائل پر قابض ہوچکی ہے اور بلوچ ساحل اور وسائل پر غیر ملکیوں کو سرمایہ کاری کے نام پر آباد کیا جا رہا ہے جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔"
بی ایل اے نے کچھ عرصہ قبل گوادر میں چینی انجینئرز پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ بلوچستان میں بلوچ عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں سے غیر ملکی سرمایہ کاری پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔