1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچ یکجہتی مارچ کے خلاف تشدد اور غیر انسانی سلوک کی شکایات

22 دسمبر 2023

مارچ کے منتظمین نے پولیس پر مظاہرین کو وحشیانہ تشدد کانشانہ بنانے اور بعض شرکا کو جبری طور پر لاپتہ کر دینے کے الزامات لگائے ہیں۔ نگراں وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ متعدد گرفتار مظاہرین کو رہا کر دیا گیا ہے۔

Pakistan  Baloch Yakjehti Committee sit-in-Protest in Quetta
تصویر: Abdul Ghani Kakar

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے ساتھ  یکجہتی کے لیے شروع کیے گئے مارچ کے شرکا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات منظور ہونے تک جدوجہد ترک نہیں کریں گے اور یہ کہ وہ اپنے مطالبات کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔

بدھ کی رات اسلام آباد پہنچنے والے شرکا نے دعویٰ کیا کہ مظاہرے کے دوران لاپتہ ہونے کچھ لوگ اب بھی غائب ہیں جبکہ کچھ کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ دوسری طرف ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور سول سوسائٹی کی دیگر تنظیموں نے پولیس اور انتظامیہ کے رویے کو انتہائی شرمناک قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ حکومت تشدد کے واقعات کی تفتیش کرائے۔

عدالتی کارروائی

واضح رہے کہ بلوچ گمشدہ افراد کے لیے یکجہتی مارچ کے شرکا پر تشدد کی خبریں سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر اتنی وائرل ہوئیں کہ یہ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا، جہاں آج جمعے کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس مارچ کے شرکاء کوزبردستی واپس ان کے صوبے نہیں بھجوایا جا سکتا۔

مارچ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا ہے جب کہ چند کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا ہےتصویر: Hazaran Baloch/BYM

ان کا کہنا تھاکہ شرکاء اسلام آباد میں قیام کر کے احتجاج کر سکتے ہیں اور واپس گھر بھی جا سکتے ہیں یہ خالصتاﹰ ان کی اپنی چوائس ہے۔ بلوچ مظاہرین کی طرف سے غیر قانونی حراست کے حوالے سے دائر کی جانے والی ایک پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے مظاہرین کے نمائندوں اور ان کے وکلا کو کہا کہ وہ اسلام آباد پولیس کے ایس ایس پی انویسٹیگیشن سے رابطہ کر کے اپنے بیانات ریکارڈ کرائیں۔

 مظاہرین کے وکیل عطااللہ کنڈی نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم کی طرف سے احکامات آئے تھے ہیں کہ مظاہرین کو واپس ان کے صوبےمیں بھیجا جائے، جس کے بعد مارچ میں شریک خواتین کو زبردستی بسوں میں بھرا گیا۔ اس موقع پراسلام آباد پولیس کے سربراہ اکبر ناصر نے عدالت کو بتایا کہ حراست میں لیے گئے مظاہرین کوایک ہاسٹل میں ٹھہرایا گیا ہے۔

دھرنا دیں گے

شرکا کا کہنا ہے کہ وہ تمام تر پولیس تشدد کے باوجود اپنی جدوجہد ترک نہیں کریں گے۔ شرکا کی قیادت کرنے والی ڈاکٹر مہرنگ بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہماری جدوجہد کسی طور پر بھی ختم نہیں ہوگی۔ ہم گمشدہ افراد کے حوالے سے احتجاج جاری رکھیں گے اور جلد ہی آسلام اباد میں دھرنا دیں گے۔‘‘

 مہرنگ بلوچ نے پولیس اور انتظامیہ پر غیر انسانی سلوک روا رکھنے کا الزام لگایا۔ '' ہمارے کئی ساتھیوں کو مارا پیٹا گیا۔ ان کو گھسیٹا گیا۔ کچھ کی انگلیاں بھی توڑی گئیں جبکہ ہمیں وومن پولیس اسٹیشن میں ساری رات ٹھنڈے فرش پر بٹھایا  گیا۔ پانی یا کھانا فراہم نہیں کیا گیا۔‘‘

ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ کچھ ساتھیوں کو غائب کردیا گیا ہے، جن کی بازیابی کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔

لاپتہ افراد کے خلاف مارچ چھ دسمبر کو کوئٹہ سے شروع ہو ا تھا تصویر: Abdul Ghani Kakar

مظاہرین  اٹک جیل میں

مظاہرین کے وکلا کی ٹیم کی ایک رکن  نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ ڈی ڈبلیو کو بتایا۔ ''اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان مظاہرین پر تشدد کیا گیا۔ مہرنگ، سمی اور کئی بلوچ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 14 کے قریب بلوچ اسٹوڈنٹس کو غائب کر دیا گیا ہے۔‘‘

اس وکیل کا کہنا تھا کہ گرفتار شدہ افراد کو عدالت میں پیش کیے بغیر 162 کے قریب بلوچ مظاہرین کو اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔ ''اڈیالہ جیل میں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں تو جیل کی انتظامیہ نے انہیں لینے سے انکار کر دیا، جس کے بعد ان کو اٹک جیل بھیج دیا گیا۔‘‘

تحقیقات کا مطالبہ

 ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے پولیس اور انتظامیہ کے رویے کو انتہائی شرمناک قرار دیا ہے اور تشدد میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔کمیشن کے چیئر پرسن اسد بٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ تمام مظاہرین کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کو روکا جائے اور بلوچستان کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پہ حل کرنے کے لیے کوئی جامع حکمت عملی بنائی جائے۔‘‘

سینیٹر طاہر بزنجو نے بھی پولیس اور انتظامیہ کے رویے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' میں نے بھی ان مظاہرین سے کل ملاقات کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے مجھے ان سے ملنے نہیں دیا۔‘‘طاہر بزنجو کے مطابق کسی بھی جمہوری ملک میں احتجاج کرنا عوام کا جمہوری حق ہوتا ہے۔ ''اور اس کو اس طرح طاقت کے بل بوتے پہ روکنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔‘‘

مارچ کے شرکا نے تربت میں مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں قتل ہونے والے بالاچ بلوچ اوردیگر تین نوجوان بلوچوں کی تصویریں اٹھا رکھی ہیںتصویر: Abdul Ghani Kakar

عدالتوں سے اپیل

 اسد بٹ نے خدشہ ظاہر کیا کہ جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں سے کچھ کو غائب بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول،'' عدالتوں کو فوری طور پر اس معاملے میں مداخلت کر کے تمام مظاہرین کی غیر مشروط رہائی کو یقینی بنانا چاہیے۔‘‘

 ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئر پرسن کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم تشدد اور دوسرے تمام واقعات کی جامع تحقیقات کرے گی۔

دریں اثنا نگراں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے تسلیم کیا ہے  کہ بلوچ مظاہرین کے حوالے سے ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوئی۔ اسلام آباد میں زرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان مظاہرین کے مطالبات دیرینہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گرفتار خواتین اور بچوں کو رہا کر دیا گیا ہے اور ان کے بقول زیر حراست لیے گئے بہت سے مرد مظاہرین کو بھی رہا کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مارچ کے حوالے سے وزیر اعظم کی ہدایت پر بنائی گئی کمیٹی اپنا کام کر رہی ہے۔ اور وقت  بلوچستان  کے گورنر اسلام آباد آئے ہوئے ہیں۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ اس کمیٹی کی آج جمعے کے روز وزیراعظم سے ملاقات بھی طہ ہے- ان کا کہنا تھا کہ اس دوران بلوچستان سے آئے ہوئے خواتین اور بچوں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے-

صوبہ سندھ کے ڈيڑھ سو سے زائد لاپتہ سياسی کارکن کہاں ہيں؟

03:39

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں