"بلیک لائیوز میٹر" پیرس کا مظاہرہ پوليس تصادم پر ختم
3 جون 2020
امریکا میں پوليس کے ہاتھوں جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کا ردعمل متعدد یورپی ممالک ميں بھی مظاہروں کی شکل ميں سامنے آرہا ہے۔ پيرس میں ہوئے مظاہرے "بلیک لائیوز میٹر" پوليس کے ساتھ تصادم پر ختم ہوا۔
اشتہار
"بلیک لائیوز میٹر" یعنی سیاہ فام کی زندگی بھی معنی رکھتی ہے، اس نعرے کے ساتھ پیرس کے مرکزی حصے ميں واقعہ "پيلس آف جسٹس" کے سامنے ہزاروں افراد امريکا ميں پولیس تحویل میں سیاہ فام باشندے جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کی مذمت کے ساتھ ساتھ سن 2016 میں فرانسیسی پولیس کی تحویل میں دم توڑنے والے سیاہ فام شخص اڈاما ٹورور کے واقعے کی بھی مذمت کر رہے تھے۔
یہ مظاہرہ پرامن طور پر شروع ہوا تھا لیکن بعد میں تشدد کی آگ بھڑک اٹھی اور پولیس نے آنسو گیس سے مشتعل مظاہرين کو منتشر کیا۔
پولیس افسران اور فائر فائٹرز کی جانب سے بھیڑ کو منتشر کی جدوجہد کے دوران متعدد مظاہرین نے گھٹنے ٹیک کر علامتی طور پر مکے دکھائے۔
پولیس نے ٹویٹر پر کہا کہ انہوں نے مداخلت کی تھی کیونکہ احتجاج کو تکنیکی طور پر کورونا وائرس سے متعلق اقدامات کے تحت کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی استدلال کیا کہ احتجاج کال کا "لہجہ" حساس مقام پر پریشانی کا خدشہ پیدا کرنے کا سبب بنا۔
حکام نے بتایا کہ شام گئے تک کچھ گروہ اس علاقے میں موجود تھے اور انہوں نے تمام مظاہرین کے گھر جانے کی ہدایت کی ہے۔ ڈی ڈبلیو کی پیرس کی نمائندہ لیزا لوئی نے کہا کہ فرانس میں عام احساس یہ ہے کہ ٹورور کی موت کے بعد سے اب تک زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں، متعدد مظاہروں اور خاص طور پر 'يلو ويسٹُ والے احتجاج کو بھی پولیس کے تشدد کا سامنا تھا۔
لوئی نے کہا ، "پارلیمنٹ ایک ایسے نئے قانون پر بھی بحث کر رہی ہے جس میں عام لوگوں پر پولیس افسران کی تصاویر پھیلانے پر پابندی ہوگی۔ "بہت سے لوگوں کو خوف ہے کہ اس سے پولیس تشدد کے خلاف ان کا تحفظ ختم ہوجائے گا۔"
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M:.Schreiber
7 تصاویر1 | 7
غالبا اس پابندی کا تعلق سوشل ميڈیا پر عام لوگوں کی طرف سے مختلف واقعات ميں پوليس کے تشدد کے ايميجز کو منظر عام پر لانے سے باز رکھنا ہے۔
واضح رہے کہ فرانسیسی پولیس کی تحویل میں دم توڑنے والے سیاہ فام شخص اڈاما ٹورور کی متنازعہ میڈیکل رپورٹس کی وجہ سے اس کی موت کے بارے میں تحقیقات موت کے چار سال بعد بھی جاری ہیں۔
اس واقعے میں ملوث تین پولیس افسران میں سے دو کے وکیل کا دعویٰ ہے کہ ٹورور کی موت گرفتاری کے نتیجے میں نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے موجود طبی مسائل اس کی ہلاکت کا سبب بنے۔