بل اور میلِنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے شریک چیئرمین بل گیٹس نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ بل گیٹس نے پولیو کے خاتمے کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔
اشتہار
گیٹس فاؤنڈیشن پاکستان، افغانستان اور نائجیریا کی حکومتوں کے ساتھ مل کر ان ممالک سے پولیو کے خاتمے کے لیے تکنیکی اور مالی تعاون فراہم کر رہی ہے۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے شریک چیئرمین بل گیٹس اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی ٹیلی فونک گفتگو کی۔ اس دوران انسداد پولیو کی مہم کے لیے اسلام آباد حکومت کے فوکل پرسن محمد بن عطا بھی عمران خان کے ساتھ موجود تھے۔
ریڈیو پاکستان اور مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق بل گیٹس نے انسداد پولیو کے لیے عمران خان کی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے عمران خان کو ملکی وزیر اعظم منتخب ہونے پر بھی مبارک باد دی۔ بل گیٹس نے عمران خان کو یقین دلایا کہ ان کی فاؤنڈیشن مستقبل میں بھی مختلف شعبوں میں پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گی۔
عمران خان نے گیٹس فاؤنڈیشن کی سماجی شعبے میں خدمات پر بل گیٹس کا شکریہ ادا کیا۔
سن 1988 میں پولیو کے خاتمے کے لیے عالمی مہم کا آغاز کیا گیا تو اس وقت یہ مرض دنیا کے 125 ممالک میں موجود تھا تاہم اب پاکستان سمیت صرف تین ممالک میں انسداد پولیو کی مہم مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو پائی۔ مائکروسافٹ کے بانی اور ان کی اہلیہ کے نام سے منصوب ’بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن‘ عالمی ادارہ صحت کے ساتھ مل کر پولیو ویکسین پر مزید تحقیق اور پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے کوشاں ہے۔
'بل گیٹس‘ ٹرینڈ کیوں کر رہا ہے؟
اس ٹیلی فونک رابطے کے بعد پاکستان میں مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر بل گیٹس کا نام ٹرینڈ کر رہا ہے۔
حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان کے دیسی مرغیوں اور انڈوں سے متعلق ایک بیان کے بعد سوشل میڈیا پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ عمران خان نے اس تنقید کے بعد بل گیٹس کے ایک ایسے ہی منصوبے کے بارے میں ایک لنک شیئر کیا تھا۔
عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے بل گیٹس کے ٹیلی فون کے بارے میں متعدد ٹویٹس کیں۔
ایک صارف نے اس کے جواب میں طنز کرتے ہوئے لکھا، ’’بل گیٹس نے مرغی والا منصوبہ چوری کرنے کی شکایت کی۔‘‘
بل گیٹس یا گیٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے اس رابطے کے حوالے سے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
پاکستانی سیاست دانوں کی ’سیاسی دوستیاں‘
عالمی یومِ دوستی کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی آپسی اور غیر ملکی سیاست دانوں سے ’سیاسی دوستیوں‘ پر نظر ڈالی۔ دیکھیے ان سیاسی دوستیوں کی چند تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
زرداری اور نواز شریف: مفاہمت بھری دوستی
پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں قائد حزب اختلاف نواز شریف کو خود سے دور کم اور قریب زیادہ رکھا۔ دونوں کے مابین اسی ’سیاسی دوستی‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔
تصویر: AP
شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن
الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ان دونوں سیاستدانوں کی دوستی کتنی مستحکم ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal
عمران خان کی نریندر مودی سے ملاقات
عمران خان نے ماضی میں نریندر مودی اور نوازشریف کی ملاقاتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن جب خود انہیں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ ٹال نہ سکے۔ رپورٹوں کے مطابق انہوں نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی موصول ہوچکی ہے۔ اب دیکھیے ان دونوں کی ’دوستی‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے؟
تصویر: MEA India
مشرف اور واجپائی: ایک تاریخ ساز مصافحہ
سن 2002 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مصافحے کو ’تاریخ ساز مصافحہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ برِ صغیر کے چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ان رہنماؤں کے مابین مذاکرات کوئی حتمی صورت اختیار کر لیتے تو شاید کشمیر پر تنازعہ کسی حل کی جانب بڑھ رہا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall
’پاک چین دوستی زندہ باد‘
1951ء میں پاک چین سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد پاکستان میں چین کی دوستی کی بات ہر پاکستانی سیاستدان کرتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبےمیں چین کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔ پاکستان کےآئندہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چین کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی غیرمستحکم معیشت کو سنبھالنے میں چین کے کردارکو سراہا۔