بمباری کے خوف سے حلب چھوڑ کر نکلتے شامیوں کا المیہ
1 مئی 2016امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری شام میں ملک گیر جنگ بندی کی کوششوں کے سلسلے میں آج جنیوا پہنچ رہے ہیں جہاں وہ سعودی عرب اور اردن کے وزراء خارجہ سے ملاقات کریں گے۔
امریکا نے روس سے درخواست کی تھی کہ وہ حلب پر جاری فضائی بمباری روکنے کے لیے اسد حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ واشنگٹن کے اس مطالبے کے جواب میں روسی نائب وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ اسد حکومت کی جانب سے کیے جانے والے حملے دہشت گردوں کے خلاف ہیں۔
اس ساری صورت حال میں باغیوں، داعش اور اسد حکومت کے درمیان پھنسے حلب کے باشندوں کا انخلا مسلسل جاری ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق روسی وزارت دفاع نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ جنگ بندی میں حلب شہر کو بھی شامل کرنے کے لیے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔
اسد حکومت کی فضائی بمباری کی وجہ سے مکمل جنگ بندی کی کوششوں کو ایک مرتبہ پھر خطرہ درپیش ہے۔ تاہم حلب کے علاوہ شام کے دیگر علاقوں میں جنگ بندی پر عمل درآمد ابھی تک قائم ہے۔ ریڈ کراس کا کہنا ہے شامی کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں امدادی سامان پہنچانے کا کام جاری ہے۔
حلب میں فائر بندی کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بھی متضاد اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ لندن میں قائم سیریئن آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نامی تنظیم کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز باغیوں کے زیر قبضہ حلب کے مشرقی علاقے میں اٹھائیس فضائی حملے کیے گئے۔ اس علاقے میں ڈھائی لاکھ سے زائد شہری موجود ہیں۔
اس کے برعکس روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کی تین مرتبہ خلاف ورزی کی گئی اور تینوں مرتبہ یہ خلاف ورزیاں باغیوں کی جانب سے کی گئیں۔ دوسری شام کے سرکاری خبر رساں ادارے سانا نے ان خلاف ورزیوں کا ذمہ دار القاعدہ سے منسلک جنگجو تنظیم النصرہ کو ٹھہرایا ہے۔
بھاگنے کا صرف ایک راستہ
ادھر حلب کے مشرقی علاقے سے نکل کر محفوظ مقامات کا رخ کرنے والے شامی خاندانوں کے لیے بھی دشواریاں ہیں۔ علاقے سے باہر نکلنے کے لیے صرف ایک سڑک ہے اور وہاں بھی حملوں کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
دوسری جانب ریڈ کراس نے جمعے کے روز دو ہسپتالوں پر کی گئی بمباری پر شدید تنقید کی ہے۔ ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ ایسے حملے جنگی جرائم میں شامل ہوتے ہیں اور انہوں نے تمام متحارب گروہوں سے تشدد ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔