جرمنی کی ایک عدالت نے ایک شامی مہاجر کو بم سازی کی کوشش کا مجرم قرار دے دیا ہے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق یہ مجرم ڈنمارک میں حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن حکام کے حوالے سے بارہ جولائی بروز بدھ بتایا کہ جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کے شہر راونزبرگ کی ایک عدالت نے ایک شامی مہاجر کو پرتشدد کارروائی کی منصوبہ بندی کے جرم میں ساڑھے چھ برس کی سزائے قید سنا دی ہے۔
عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ملزم نے بم سازی کی نیت سے ساز و سامان خریدا تھا۔ وہ مبینہ طور پر ڈنمارک میں ایک حملہ کرنے کی منصوبہ بندی میں تھا۔ جرمن میڈیا میں اس مجرم کا نام ظاہر نہیں کیا گیا بلکہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ یہ اکیس سالہ مرد ایک شامی شہری ہے، جو بطور مہاجر جرمنی آیا تھا۔
جرمن سکیورٹی اہلکاروں نے ایک کارروائی کرتے ہوئے اس شامی باشندے کو گزشتہ برس نومبر میں حراست میں لیا تھا۔ تب اس سے ماچس کی سترہ ہزار ڈبیاں، آتش بازی کا سامان، سترہ بیٹریاں، چھ واکی ٹاکیز اور دو خنجر بھی برآمد کیے گئے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ اس سامان کے ساتھ وہ ڈنمارک جانے کی کوشش میں تھا۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
جرمن حکام کے مطابق یہ شامی مہاجر سن دو ہزار پندرہ میں جرمنی آنے کے بعد انتہا پسندی کی طرف مائل ہو گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ وہ شام اور عراق میں فعال انتہا پسند گروپ داعش کے نظریات سے متاثر تھا اور اسی لیے حملہ کرنا چاہتا تھا۔ یورپ میں متعدد دہشت گردانہ حملوں کے بعد سکیورٹی ادارے انتہائی چوکس ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ شام اور عراق میں داعش کے جنگجوؤں کو مسلسل شکست کا سامنا ہے۔ عراقی شہر موصل میں اس گروہ کی شکست کو اس دہشت گرد گروپ کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ کئی ناقدین خبردار کر چکے ہیں کہ جیسے جیسے یہ شدت پسند شام اور عراق جیسے ممالک میں پسپا ہوتے جائیں گے، وہ دیگر ممالک کا رخ کریں گے تاکہ وہاں حملے کر سکیں۔ یورپی خفیہ ادارے بھی خبردار کر چکے ہیں کہ بڑے یورپی ممالک میں حملے کیے جا سکتے ہیں۔