پاکستان میں چند روز بعد انتخابات غیریقینی کی صورتحال سے دو چار ہیں، پنجاب میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی آمد پر کارکنوں کی گرفتاریاں اور خیبر پختونخوا میں بعض سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔
اشتہار
ان حالات نے عام ووٹرز کو خوف میں مبتلا کر دیا۔ اگرچہ الیکشن قریب آتے ہی سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے، تاہم جلسے جلوسوں میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے عوام کا جذبہ کسی حد تک ماند بھی پڑ گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں گزشتہ ایک ہفتے سے سیاسی اجتماعات میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ جمعے کے روز متحدہ مجلس عمل کے ضلع بنوں سے قومی اسمبلی کے امیدوار اور سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اکرم خان درانی کے قافلے کو ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا۔ اکرم خان درانی اس حملے میں محفوظ رہے تاہم اس واقعے میں پانچ افراد ہلاک جب کہ سولہ سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں، جن میں بچے ،خواتین اور پولیس اہلکار شامل ہیں۔
اکرم خان درانی پر یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ بنوں کے ہویدا نامی علاقے میں جلسے کے بعد واپس جا رہے تھے اس دوران گنجان آباد علاقے سے گزرتے ہوئے ان کی گاڑی جب ایک موٹر سائیکل کے قریب گزری اس وقت ریموٹ کنٹرول بم سے دھماکا کرایا گیا، جس سے گاڑی کو نقصان پہنچا تاہم اکرم درانی محفوظ رہے۔ بنوں کے ضلعی پولیس افسر خرم رشید نے میڈیا کو بتایا، ’’بارودی مواد موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا، جسے اکرم درانی کے قافلے کے قریب اتے ہی ریموٹ کنٹرول سے اڑا دیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جلسے کے لیے پچاس سیکورٹی اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ رشید نے بتایا کہ پشاور کے خود کُش حملے کے بعد کوشش کی گئی ہے کہ امیدواروں کو مکمل سیکورٹی فراہم کی جائے۔
تاہم متحدہ مجلس عمل کے رہنما اور جمیعت علما اسلام خیبر پختونخوا کے امیر مولانا گل نصیب خان صوبائی حکومت کی جانب سے امیدواروں کی سیکورٹی کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے مطمئن نہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’نگران حکومت اور سکیورٹی ادارے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو سیکورٹی فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس انداز کے حملے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہیں اور اگر بدامنی کی وجہ سے انتخابات ملتوی کیے گئے تو یہ عمل نگران حکومت کے چہرے پر ایک بدنما داغ تصور کیا جائے گا۔
شمالی اور جنوبی وزیر ستان کے ساتھ متصل ضلع بنوں سکیورٹی کے لحاظ سے حساس علاقہ قرار دیا جاتا ہے، جہاں گزشتہ دو ہفتے کے دوران سیاسی سرگرمیوں کے دوران دہشت گردی کے دو واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اس حلقے میں جمیعت علما اسلام (ف) کا مضبوط ووٹ بنک تصور کیا جاتا ہے، جب کہ رواں انتخابات میں اس حلقے سے اکرم خان درانی اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے مابین مقابلہ ہے۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2017 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کےشکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست ہے۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے قریب تین ہزار واقعات پیش آئے جن میں قریب 10 ہزار افراد ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا جہاں قریب ساڑھے تیرہ سو دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انسان ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد، اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم رہی۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.44 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 9.00 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 466 دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سن 2014 میں ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2016 میں دہشت گردی کے 366 واقعات رونما ہوئے جن میں اکیس سو انسان ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.6 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 736 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے نو سو افراد ہلاک اور سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان، داعش کی خراسان شاخ اور لشکر جھنگوی نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی جس کی ایک اہم وجہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب نامی فوجی آپریشن بنا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 366 واقعات میں قریب ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔
تصویر: Reuters/F. Salman
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ ساتویں نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ الشباب کے شدت پسندوں نے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.6 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت بھی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جہاں دہشت گردی کے نو سو سے زائد واقعات میں 340 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن 2015 کے مقابلے میں اٹھارہ فیصد زیادہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2016ء میں لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں میں پانچ بھارتی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
ترکی
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ترکی پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ترکی میں 364 دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد افراد ہلاک اور قریب تئیس سو زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے۔ لیبیا میں بھی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں لیبیا کا اسکور 7.2 رہا۔
تصویر: Reuters/H. Amara
10 تصاویر1 | 10
حملے کے بعد میڈیا سے بات چیت کے دوران اکرم خان درانی کا کہنا تھا، ’’جتنا بھی عدم استحکام ہے، وہ پختونوں کی سرزمین پر ہے۔ اس میں ستر ہزار پختونوں کی جان گئی لیکن کارکنوں سے یہی کہوں گا کہ ہمت نہیں ہارنا۔ حکومت اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ تعاون کرنا اور دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنانا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا مدمقابل امیدوار ہیلی کاپٹر سے انتخابی مہم چلاتا ہے جب کہ وہ اپنے لوگوں کے پاس جاتے ہیں۔ اکرم درانی کا کہنا تھا کہ سیکورٹی ادارے کہتے ہیں کہ تین دہشت گرد داخل ہوئے ہیں انہیں ان لوگوں کے حلیے کا بھی پتہ ہوتا ہے اگر انہیں معلومات ہیں تو انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا جاسکتا؟
مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ، خیبر پختونخوا میں سیاسی لوگوں کے جلسوں اورکارنر میٹنگز پر حملے، ٹارگٹ کلنگ، آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے نام ای سی ایل میں ڈالنے اور بعد میں نکالنے سمیت سیاسی لوگوں کے خلاف کرپشن کے کیسز لانے اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافے نے صورتحال کو نیا رخ دیا ہے۔ پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن آج بھی سراپا احتجاج ہیں۔ تاہم آج حملے کا شکار ہونے والے اکرم خان درانی کی طرح اسفندیار ولی خان کا بھی یہی موقف ہے کہ بعض قوتیں انہیں انتخابی عمل سے باہر رکھنا چاہتی ہیں۔ ہارون بلور کی کارنر میٹنگ میں دہشت گردانہ حملے میں بائیس افراد کی ہلاکت کے بعد این پی نے تین روزہ سوگ کے بعد انتخابی سرگرمیاں بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔