040411 Klima Konferenz Atomkraft
4 اپریل 2011اس کئی روزہ کانفرنس ميں دراصل جنوبی افريقہ کے شہر ڈربن ميں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس کی تيارياں کی جانا تھيں ليکن فوکو شيما کی صورتحال کی وجہ سے اِس کے موضوعات تبدیل ہو چکے ہیں۔
بنکاک ميں کانفرنس ہال کے باہر ايشيا بحرالکاہل تحریک برائے ترقی کے اراکين موجود تھے، جو موسمیاتی تبدیلیوں سے پہنچنے والے نقصانات کے بدلے میں معاوضے ادا کیے جانے کے نعرے لگا رہے تھے۔ انہوں ن۔ جو بینرز اٹھا رکھے تھے، اُن پر بھی اسی قسم کے نعرے لکھے ہوئے تھے۔ يہ مظاہرين جلد کاميابياں ديکھنے کے منتظرہيں۔ ايک کارکن نے کہا:’’ہمارا مطالبہ ہے کہ مذاکرات شفاف ہوں اور اُن کے ٹھوس نتائج برآمد ہوں تاکہ لوگوں کومزيد مشکلات نہ اٹھانا پڑيں۔ زمينی موسم اور آب و ہوا کو نقصان پہنچانے والے مادوں کے اخراج میں جلد اور نمایاں کمی کی جانا ضروری ہے ورنہ آب و ہوا کو شدید اور ڈرامائی نقصان پہنچے گا۔‘‘
بنکاک ميں جاری اِس کانفرنس میں دنيا کے 196 ممالک کے ماہرين شریک ہیں، جو موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر دسمبر ميں جنوبی افريقہ ميں مجوزہ عالمی سربراہی کانفرنس کی تيارياں کر رہے ہيں۔ کانفرنس کا ایک اہم موضوع یہ بھی ہے کہ صنعتی اور ترقی پذير ملکوں کے درميان اعتماد کی فضا بحال کرنا نہايت ضروری ہے۔ اس سلسلے ميں 100 ارب ڈالر کی ماليت کا ايک مجوزہ گرين فنڈ مددگار ثابت ہوگا۔
تاہم جاپان کے جوہری حادثے نے اِس کانفرنس کے اصل موضوعات کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ فوکوشیما کے ری ایکٹرز کی تباہی نے واضح کر دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں ایٹمی توانائی کئی مسائل لیے ہوئے ہے۔ ترقی کی دہلیز پر کھڑے بہت سے ممالک نئے ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں تاکہ کاربن گیسوں کے اُس اخراج کو کم کر سکیں، جو اُن کی اقتصادی ترقی کی وجہ سے دیکھنے میں آ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کونسل کی سربراہ کرسٹیانا فگیریس کہتی ہیں: ’’جاپان میں پیش آنے والے واقعات موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے درحقیقت کتنی اہمیت رکھتے ہیں، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ اُن تمام ممالک کو، جو ایٹمی توانائی سے استفادہ کر رہے ہیں یا اِس کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، اب ایک بار پھر جانچنا ہو گا کہ آیا اُن کے ایٹمی بجلی گھر واقعی محفوظ بھی ہیں۔ جاپان کے حالات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ آج کل کے معیارات کافی نہیں ہیں۔‘‘
اِس کانفرنس میں ماہرین اب اِس بات پر بھی تبادلہء خیال کر رہے ہیں کہ کہیں ایٹمی توانائی ترک کرنے والے ممالک ایک بار پھر زیادہ کوئلہ اور گیس تو نہیں جلانے لگیں گے۔ توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع کے استعمال کے فروغ کے سلسلے میں اُس گرین فنڈ سے مدد لی جا سکتی ہے، جس کا فیصلہ کنکون کی ماحولیاتی کانفرنس میں عمل میں لایا گیا تھا۔ تاہم اِس فنڈ کے سلسلے میں ابھی یہ بات غیر واضح ہے کہ اِس کے لیے مجوزہ 100 ارب ڈالر ادا کون کرے گا۔
رپورٹ: اُوڈو شمٹ (سنگاپور) / شہاب احمد صدیقی
ادارت: امجد علی