1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیشی الیکشن کمیشن کے سربراہ اور ارکان مستعفی ہو گئے

5 ستمبر 2024

چیف الیکشن کمشنر اور دیگر چار ارکان نے جنوری میں شیخ حسینہ کو فتح دلوانے والے متنازعہ انتخابات منعقد کرائے تھے۔ شیخ حسینہ کی اقتدار سے رخصتی کے بعد متعدد اعلیٰ سرکاری عہدیدار استعفے دے چکے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر قاضی حبیب الاول اور چار دیگر علاقائی الیکشن کمشنروں نے سابق وزیر اعظم کی معزولی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے استعفے پیش کی
چیف الیکشن کمشنر قاضی حبیب الاول اور چار دیگر علاقائی الیکشن کمشنروں نے سابق وزیر اعظم کی معزولی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے استعفے پیش کیتصویر: Mortuza Rashed/DW

بنگلہ دیش میں انتخابی کمیشن کے سربراہ نے رواں برس جنوری میں کرائے گئے عام انتخابات میں کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت سے انکار کرتے ہوئے آج جمعرات پانچ ستمبر کے روز اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ان انتخابات میں شیخ حسینہ کے چوتھی مرتبہ ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ تاہم شیخ حسینہ گزشتہ ماہ احتجاجی طلبا کی قیادت میں آنے والے انقلاب کے بعد ملک سے فرار ہو گئی تھیں۔

چیف الیکشن کمشنر قاضی حبیب الاول اور چار دیگر علاقائی الیکشن کمشنروں نے سابق وزیر اعظم کی معزولی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے استعفے پیش کیے۔ اب یہ پانچوں بھی شیخ حسینہ کی اقتدار سے رخصتی کے بعد مرکزی بینک کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے ججوں سمیت اپنے عہدے چھوڑنے والے متعدد سرکاری عہدیداروں میں شامل ہو گئے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر اور دیگر چار ارکان نے جنوری میں شیخ حسینہ کو فتح دلوانے والے متنازعہ انتخابات منعقد کرائے تھےتصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

قاضی حبیب الاول  نے نامہ نگاروں کو بتایا، ''میں نے اور دیگر کمشنروں نے ملک کے بدلے ہوئے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے استعفے دینے کا فیصلہ کیا۔‘‘ مستعفی ہونے والے پانچوں کمشنروں نے جنوری میں ہونے والے ان انتخابات کے انعقاد کی قیادت کی تھی،  جن میں شیخ حسینہ، ان کی جماعت عوامی لیگ اور ان کے اتحادیوں کو پارلیمانی سیٹوں پر تقریباً مکمل اجارہ داری کی ضمانت دی گئی تھی۔

یہ انتخابات ووٹروں کے کم  ٹرن آؤٹ اور مرکزی حزب اختلاف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے بائیکاٹ کی وجہ سے متاثر ہوئے تھے۔ ان سے قبل  حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ہزاروں اراکین کو ملک گیر کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں اور متعدد مغربی ممالک کی حکومتوں نے اس انتخابی عمل کو غیر شفاف اور غیر منصفانہ قرار دیا تھا۔

لیکن قاضی حبیب الاول نے کہا کہ شیخ حسینہ کی حقیقی سیاسی مخالفت کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ انتخابات دیانتداری کے ساتھ کرائے گئے تھے۔ انہوں نے کہا، ''مرکزی اپوزیشن پارٹی بی این پی اور اس کی ہم خیال جماعتوں نے انتخابات میں شرکت نہیں کی۔ چونکہ یہ یک جماعتی انتخابات تھے، اس لیے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔‘‘

محمد یونس کو ملک میں سیاسی اور اقتصادی اصلاحات متعارف کرانے کا چیلنج درپیش ہےتصویر: Raphael Lafargue/abaca/picture alliance

شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور حکومت میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئی تھیں، جن میں ان کے سیاسی مخالفین کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور ماورائے عدالت قتل بھی شامل تھے۔ شیخ حسینہ گزشتہ ماہ اپنی حکومت کے اختتامی لمحات میں ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت فرار ہو گئی تھی، جہاں وہ ابھی تک مقیم ہیں اور ان کی جگہ نوبل امن انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کی قیادت سنبھال چکے ہیں۔

محمد یونس کو برسوں کے جبر کے بعد جمہوری اصلاحات کا خاکہ ترتیب دینے کا اہم کام درپیش ہے لیکن ان کی نگران کابینہ نے ابھی تک یہ اشارہ نہیں دیا کہ ملک میں نئے انتخابات کب ہوں گے۔ شیخ حسینہ کے دور حکومت میں اہم سرکاری عہدوں پر رہنے والے بیوروکریٹس نے طالب علموں کے احتجاج کی قیادت کرنے والے رہنماؤں کی جانب سے الٹی میٹم دیے جانے کے بعد اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے تھے۔

ش ر⁄ م م (اے ایف پی)

حسينہ واجد ملک سے فرار، فوجی چيف کا عوام سے خطاب

01:42

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں