1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کی سزائے موت برقرار

مقبول ملک16 جون 2015

بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے آج منگل سولہ جون کے روز ریاستی خود مختاری کی جدوجہد کے دوران جنگی جرائم کے الزام میں ملک کے دوسرے اہم ترین اسلام پسند سیاسی رہنما کو سنائی گئی سزائے موت کی توثیق کر دی۔

علی احسن محمد مجاہد کو عدالت میں لایا جا رہا ہے، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/dpa/Stringer

بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد کو ماضی قریب میں سنائی گئی سزائے موت کے خلاف اپیل کے مسترد کیے جانے کے بعد اب ان کو پھانسی دیے جانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

ملکی سپریم کورٹ کی طرف سے آج سنائے گئے ایک مختصر فیصلے کے وقت عدالت میں موجود اے ایف پی کے ایک نامہ نگار کے مطابق چیف جسٹس ایس کے سنہا نے کہا کہ عدالت ملزم علی احسن محمد مجاہد کی طرف سے ان کو سنائی گئی موت کی سزا کے خلاف دائر کردہ اپیل کو رد کرتی ہے۔

اس فیصلے کے بعد وکیل استغاثہ سومیا رضا نے اے ایف پی کو بتایا، ’’سپریم کورٹ نے مجاہد کو سنائی گئی سزائے موت بحال رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اب مجاہد کو اگلے چند ماہ کے دوران پھانسی پر لٹکایا جا سکتا ہے۔‘‘

مجاہد بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل ہیں جو اس جنوبی ایشیائی ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند پارٹی ہے۔ انہیں 1971ء میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی اور آزادی کی جنگ کے دوران قتل اور ایذا رسانی کے پانچ مختلف الزامات کے تحت ایک خصوصی عدالت نے 2013ء میں موت کی سزا سنائی تھی۔ ان کے خلاف اس عدالتی فیصلے پر جماعت اسلامی کے کارکنوں نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں شروع کر دی تھیں۔

مجاہد کی عمر اس وقت 67 برس ہے اور انہیں بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد کے دوران ان کے کردار پر پھانسی دی جا سکتی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق وہ اس سزائے موت سے اب صرف اسی صورت میں بچ سکتے ہیں کہ یا تو ملکی سپریم کورٹ ان کو سنائی گئی سزا کا نئے سرے سے جائزہ لے اور اپنا آج کا فیصلہ منسوخ کر دے یا پھر ملکی صدر ان کی سزا معاف کر دیں۔

جماعت اسلامی کے ایک اور سینیئر رہنما عبدالقادر ملا کو اسی نوعیت کے ایک مقدمے میں سزائے موت دیے جانے پر پورے ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے تھےتصویر: Reuters

بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد کے دوران جنگی جرائم سے متعلق مقدمات کی سماعت کرنے والی اور ڈھاکہ حکومت کی قائم کردہ ایک خصوصی عدالت نے مجاہد کو سزائے موت اس لیے سنائی تھی کہ 1971ء میں وہ ’البدر‘ نامی اس پاکستان نواز ملیشیا کے کمانڈر تھے جو بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کی مخالف تھی اور جس کے ارکان ’بنگلہ ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کے قتل‘ کے مرتکب ہوئے تھے۔

مجاہد کے وکلائے صفائی کے مطابق یہ سیاسی رہنما البدر کے کمانڈروں میں شامل نہیں تھے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کا نام البدر کے کمانڈروں کی اس فہرست میں شامل نہیں تھا جو بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد قائم ہونے والی پہلی ملکی حکومت نے شائع کی تھی۔ مجاہد کے وکیل صفائی شیشیر مانیر نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ سپریم کورٹ کے آج سنائے گئے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔

بنگلہ دیش میں یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ملکی سپریم کورٹ نے کسی اسلام پسند سیاستدان کو 1971ء کے واقعات میں اس کے کردار کی وجہ سے سنائی گئی موت کی سزا کے خلاف کوئی اپیل بڑی تیزی سے مسترد کی ہے۔

مجاہد سے قبل بھی جماعت اسلامی کے دو دیگر سینیئر عہدیداروں کو موت کی سزائیں سنائی گئی تھیں، جن پر عمل درآمد بھی کر دیا گیا تھا۔ ان دو شخصیات میں سے ایک کو پھانسی ابھی اسی سال اپریل میں دی گئی تھی۔ جماعت اسلامی کے ان دونوں سرکردہ سزا یافتہ رہنماؤں نے ملکی صدر کو اپنے لیے معافی کی درخواستیں دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں