بنگلہ دیشی سکیورٹی گارڈز روہنگیا خواتین کو ہراساں کر رہے ہیں
2 فروری 2024
متعدد روہنگیا خواتین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ بنگلہ دیش کے کوکس بازار میں واقع پناہ گزین کیمپ میں سکیورٹی فورسز نے انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
اشتہار
جنوبی بنگلہ دیش میں کوکس بازار میں واقع روہنگیا مہاجرین کے کیمپ کو بے گھر افراد کے لیے دنیا کی سب سے بڑی عارضی بستی قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں تقریباً دس لاکھ روہنگیا پناہ گزین بانس اور پلاسٹک سے بنی جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ہمسایہ ملک میانمار میں نسلی اور مذہبی ظلم و ستم سے فرار ہو کر یہاں آن بسے ہیں۔
حالیہ برسوں میں کوکس بازار میں واقع ان کیمپوں میں سکیورٹی کی صورتحال خراب ہوتی دیکھی گئی ہے، جنسی حملے، اغوا، بھتہ خوری اور قتل جیسے جرائم روز مرہ کے واقعات بن رہے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ کیمپ جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ ساتھ باغی روہنگیا افراد سے بھی بھرے ہوئے ہیں۔ دریں اثنا اس کیمپ کے باسیوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کی جانے والی بدسلوکی کی بھی شکایت کی جاتی ہے۔
سکیورٹی گارڈز پر جنسی زیادتی کے الزامات
کوکس بازار کے بلوکھالی پناہ گزین کیمپ میں رہنے والی بائیس سالہ ایک روہنگیا خاتون نے بتایا کہ بنگلہ دیش آرمڈ پولیس بٹالین (اے پی بی این) کا ایک پولیس افسر کئی مہینوں سے اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ خاتون کا کہنا تھا کہ یہ پولیس اہلکار کیمپ سکیورٹی گارڈز میں شامل تھا۔
انہوں نے بتایا کہ سات جنوری کی رات کو وہ سرچ آپریشن کے بہانے ان کے گھر میں داخل ہوا اور ریپ کی کوشش کی۔ مدد کے لیے پکارنے کے بعد پڑوسیوں نے اسے بچالیا۔
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/Aung Shine Oo
14 تصاویر1 | 14
اس خاتون کے شوہر نے ٹیلی فون کے ذریعے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب سے انہوں نے کیمپ انچارج (سی آئی سی) کو اس واقعے کے بارے میں زبانی شکایت درج کرائی ہے، تب سے انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں، ’’ہمیں شکایت واپس لینے کی دھمکی دی گئی ہے۔ بصورت دیگر انہوں نے کہا کہ وہ مجھے جھوٹے الزامات پر گرفتار کر کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیں گے۔ ‘‘
ہیومن رائٹس واچ کی مذمت
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے۔ الزام عائد کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی پولیس روہنگیا کیمپوں میں بڑے پیمانے پر زیادتیاں کر رہی ہے۔ اس عالمی ادارے نے بنگلہ دیشی حکام پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس معاملے کی فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائیں۔
اس رپورٹ میں یہ بات بھی کی گئی ہے کہ کیمپوں میں مہاجر خواتین کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ڈھاکہ حکومت کو پولیس تشدد کے الزامات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔
کوکس بازار میں بنگلہ دیش کے پناہ گزین کمشنر محمد میزان الرحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ انہیں ایک اخبار کی خبر سے علم ہوا کہ کسی پولیس اہلکار نے ایک مہاجر خاتون کا ریپ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے حکام سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
میزان الرحمان نے کہا، ’’میں نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے اسے اے پی بی این کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل کے پاس بھیج دیا ہے۔ چونکہ کسی نے مجھ سے شکایت نہیں کی ہے، اس لیے میں اس بارے میں زیادہ نہیں جانتا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیشی سرکاری ملازم ایسے کسی واقعے میں ملوث نہیں ہو سکتا ہے لیکن اگر کوئی ایسا کرتا ہے، تو اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
اشتہار
انصاف نہیں ملتا، مہاجرین کی دُہائی
متعدد پناہ گزینوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ مبینہ ریپ اور قتل کے واقعات کے بارے میں مقامی تھانوں میں باضابطہ شکایات یا قانونی کارروائی کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
گزشتہ چونتیس برس سے کتوپلونگ کیمپ میں مقیم روہنگیا پناہ گزین عبدالغفور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دو اگست سن 2022 کو ان کی سترہ سالہ بیٹی کو ریپ کے بعد ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی بیٹی کے پورے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ تاہم وہ کوشش کے باوجود انصاف کے حصول میں ناکام ہی رہے۔
روہنگیا مہاجرین دنیا کے کون کون سے ممالک میں ہیں
میانمار کی روہنگیا اقلیت پر ینگون سکیورٹی فورسز کے مبینہ مظالم کے خلاف اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ اقلیت اس وقت دنیا کے کن ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہے، اس حوالے سے یہ تصاویر دیکھیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Jones
میانمار
اعداد وشمار کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش کی طرف حالیہ ہجرت سے قبل میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ تھی۔ میانمار میں انہیں غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Jones
بنگلہ دیش
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد روہنگیا اپنی جان بچانے کے لیے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہےکہ مہاجرین کی تعداد اور ضروریات کے تناظر میں بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھاری امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: Getty Images/P. Bronstein
پاکستان
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے انتہائی پسماندہ علاقوں اور بستیوں میں قریب تین لاکھ روہنگیا باشندے مقیم رہائش پذیر ہیں۔ یہ وہ باشندے ہیں، جن میں سے بہت سے قریب نصف صدی قبل سابق برما اور موجودہ میانمار میں ہونے والی خونریزی سے بچتے بچاتے پاکستان پہنچے تھے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
سعودی عرب
ساٹھ کی دہائی میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے دورِ ِ اقتدار میں ہزاروں روہنگیا مسلمان برما (جو اب میانمار ہو چکا ہے) کے مغربی صوبے اراکان سے ہجرت کر کے سعودی شہر مکہ پہنچے تھے۔ حال ہی میں ریاض حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر پندرہ ملین ڈالر کی امداد روہنگیا مسلمانوں کو دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
تصویر: DW/L. Kafanov
ملائیشیا
ملائیشیا کی حکومت کے مطابق راکھین ریاست میں شورش کی وجہ سے ہزاروں روہنگیا افراد ہمسایہ ممالک میں فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ سے زائد اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P. Hossain
بھارت
میانمار کی روہنگیا اقلیت کئی برسوں سے ہجرت کر کے بھارت کا رخ کرتی رہی ہے۔ بھارت میں اقوام متحدہ کی جانب سے قائم کردہ مہاجر کیمپوں میں سولہ ہزار سے زائد روہنگیا رہ رہے ہیں تاہم ایک اندازے کے مطابق بھارت میں کم و بیش چالیس ہزار روہنگیا مہاجرین مقیم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/C. Anand
تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں بھی روہنگیا مسلمان اچھی خاصی تعداد میں مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں۔ یہ روہنگیا افراد بھی میانمار سے ہجرت کر کے تھائی لینڈ پہنچے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Alam
7 تصاویر1 | 7
ملزمان کو عدالت میں ہی نہیں لایا جاتا
پناہ گزین کیمپ میں اپنی پوری زندگی گزارنے والی ایک 27 سالہ روہنگیا خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اے پی بی این کے ارکان نے گزشتہ سال اس وقت اس کے ساتھ ریپ کی کوشش کی تھی جب وہ رات کو ایک ہسپتال سے گھر لوٹ رہی تھی۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پولیس نے چیک پوسٹ کے قریب مجھے ریپ کرنے کی کوشش کی، انہوں نے میرے کپڑے پھاڑ دیے اور میرے سینے کو چھوا۔‘‘
تین بچوں کی ماں نے مزید بتایا کہ انہیں وہاں سے ایک پولیس اسٹیشن لے جایا گیا اور اس وقت تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب تک کہ وہ بے ہوش نہ ہو گئیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بعد میں مجھے جھوٹے الزامات پر گرفتار کر لیا گیا اور تین مہینے کے لیے جیل بھیج دیا گیا، ’’اے پی بی این کے ارکان کیمپوں میں کسی بھی عورت کو پرکشش سمجھتے ہیں تو اسے ہراساں کرتے ہیں۔ وہ گلیوں میں نامناسب طریقے سے ان کے گالوں اور سینوں کو چھوتے ہیں اور رات کو ان کے گھروں میں جا کر ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔‘‘
ایک اور اٹھارہ سالہ روہنگیا خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اے پی بی این کے ارکان نے دو سال قبل اپنے بھائی کو گرفتار کرنے کے بہانے پناہ گزین کیمپ میں اس کی جھونپڑی میں اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی اور اسے ابھی تک انصاف نہیں ملا ہے، ’’مجھے متعدد مرتبہ ریپ کیا گیا، میں خود کو محفوظ تصور نہیں کر سکتی۔ بنگلہ دیش حکومت مجھے انصاف دلائے۔‘‘
فوری ایکشن کی ضرورت ہے، انسانی حقوق کے ادارے
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت کو کوکس بازار کے مہاجر کیمپوں میں حالات ٹھیک کرنے کی فوری کوشش کرنا چاہیے۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ خوف کی وجہ سے بہت سے متاثرہ مہاجرین خاموش ہو جاتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کے اداروں نے بھی اس صورتحال پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ مہاجرین کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔
عرفات الاسلام (ع ب/ ک م)
بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا مسئلہ