بنگلہ دیشی طلبہ رہنما حکومت کی ’حفاظتی تحویل‘ میں
27 جولائی 2024'عدم مساوات کے خلاف طلبہ‘ نامی تحریک کے سربراہ ناہید اسلام اور مظاہرین کے گروپ کے دیگر دو سینیئر ارکان کو جمعے کے روز ہسپتال سے زبردستی رخصت کیا گیا اور سفید کپڑوں میں ملبوس اہلکار انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔
بنگلہ دیش: پرتشدد جھڑپوں کے بعد حالات معمول پر لانے کی کوشش
بنگلہ دیش: حالات پرسکون لیکن کشیدہ، اب تک بارہ سو گرفتاریاں
ان تین اہم طلبہ رہنماؤں کی جانب سے بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کے بعد پولیس نے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا اور اس کے نتیجے میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان خون ریز جھڑپیں دیکھی گئی تھیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پولیس اور ہسپتالوں کے اعدادوشمار کو جمع کرتے ہوئے ان مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد کم از کم دو سو ایک بتائی ہے۔
اسلام نے اس سے قبل خبر رساں دارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ انہیں دوران حراست تشدد کی وجہ سے زخمی ہونے پر دارالحکومت ڈھاکا کے ایک ہسپتال میں رکھا گیا ہے۔ پولیس نے ابتدا میں ناہید اسلام اور ان کے دو ساتھیوں کی گرفتاری سے انکار کیا تھا تاہم جمعے کی شب وزیرداخلہ اسدالزمان خان نےتصدیق کی تھی کہ وہ پولیس کے پاس ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''وہ خود کو غیرمحفوظ محسوس کر رہے تھے۔ انہیں لگ رہا تھا کہ کچھ افراد انہیں دھمکا رہے ہیں۔ اس لیے ہم نے ان کی سلامتی کے مدنظر حراست میں لیا ہے تاکہ تفتیش ہو سکے کہ انہیں کون دھمکا رہا ہے۔ اس تفیش کے بعد ہم آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔‘‘
خان نے تاہم یہ تصدیق نہیں کی کہ آیا ان تینوں کو باقاعدہ گرفتار کیا گیا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ بنگلہ دیش میں حالیہ کچھ روز میں نہایت پرتشدد اور بڑے عوامی مظاہرے دیکھے گئے، جن میں حکومتی عمارات اور پولیس پوسٹوں کو آگ لگائی گئی جب کہ سڑکوں پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ حالات کی اسی سنگینی کے تناظر میں وزیراعظم حسینہ واجد نے فوج طلب کر لی تھی اور ملک بھر میں کرفیو کا نفاذ کرتے ہوئے انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی تھی۔
اے ایف پی کے مطابق ان مظاہروں نے گذشتہ ہفتےاس وقت پرتشدد رنگ اختیار کیا تھا، جب حکومت کے حامی گروپوں اور پولیس نے امتیاز کے خلاف طلبہ کے نام سے ہونے والے احتجاج میں شامل افراد پر حملے کیے۔
26 سالہ ناہید اسلام امتیاز کے خلاف طلبہ کے چیف کوآرڈینیٹر ہیں۔ پیر کے روز ہسپتال کے بستر سے اے ایف پی کے ساتھ گفتگو میں اسلام نے اپنی جان کو لاحق خطرات کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ دو روز قبل چند افراد جنہوں نے خود کو پولیس کا اہلکار ظاہر کیا، انہیں آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ہتھکڑی لگا کر نامعلوم مقام پر لے گئے اور اگلی صبح رہا کیا۔ اسلام کے ساتھی آصف محمود نے بھی اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں گذشتہ ہفتے پولیس نے حراست میں لیا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
بتایا گیا ہے کہ مظاہروں نے آغاز سے اب تک پولیس کم از کم ساڑھے چار ہزار افراد کو گرفتار کر چکی ہے۔
ع ت، ش ر (اے ایف پی)