بنگلہ دیشی پولیس کی نئی وردی: ساکھ بہتر بنانے کی کوشش
20 نومبر 2025
بنگلہ دیش کی پولیس فورس 2024 میں آمرانہ حکومت کی برطرفی کے بعد شدید بحران کا شکار ہو گئی ہے، یہ وہ حکومت تھی جس کی سربراہی اب سزائے موت یافتہ اور مفرور شیخ حسینہ کر رہی تھیں۔ اس سیاسی بحران میں کم از کم 1,400 افراد مارے گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے، جن میں سے کئی پولیس کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔
پولیس کے ترجمان شہادت حسین نے اے ایف پی کو بتایا، ''بنگلہ دیشی پولیس کو ایک غیر معمولی بحران کا سامنا رہا ہے۔ پالیسی سازوں نے تجویز دی کہ نئی وردی ایک مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔‘‘
پولیس نے اب اپنی روایتی فیروزی اور نیلی وردیوں کو تبدیل کر کے آئرن گرے شرٹس اور چاکلیٹی براؤن پینٹس اپنا لی ہیں۔
تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا یہ نئے رنگ کی وردی ایک ٹوٹے ہوئے اعتماد کو بحال کر سکے گی یا نہیں۔
اڑتالیس سالہ ناظمہ اختر، جن کے 17 سالہ بیٹے غلام نفیض کو عوامی بغاوت کے دوران قتل کر دیا گیا، نے کہا، ''جب بھی میں پولیس والے کو دیکھتی ہوں، میرا دل چاہتا ہے کہ اس کا گوشت نوچ لوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کبھی اس نفرت سے نکل پاؤں گی یا نہیں۔‘‘
ناظمہ کا بیٹا 4 اگست 2024 کو گولی لگنے کے بعد اسپتال میں داخلے سے انکار پر خون بہہ جانے سے جان کی بازی ہار گیا۔
ناظمہ کا مزید کہنا تھا،''ایک نئی وردی ان کا رویہ کیسے بدل سکتی ہے؟ میں نے انہیں اساتذہ کو صرف تنخواہ بڑھانے کے مطالبے پر مارتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
ایک سو ستر ملین آبادی والے اس ملک میں انتخابات فروری 2026 میں متوقع ہیں، اور امن و امان برقرار رکھنا سکیورٹی فورسز کی سب سے اہم ذمہ داری ہو گی۔
امیج بہتر کرنے کی جدوجہد
سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو ڈھاکہ کی ایک عدالت نے پیر کے روزموت کی سزا سنائی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کو مہلک طاقت استعمال کرنے کا حکم دیا تھا۔
حسینہ کی اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش اُس وقت ناکام ہو گئی جب انہوں نے فوج کو مظاہروں کو کچلنے کا حکم دیا، لیکن فوج نے ماننے سے انکار کر دیا۔
حکام کے مطابق، ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی افراتفری میں توڑ پھوڑ اور آگ زنی کے واقعات میں ملک کے 600 میں سے تقریباً 450 تھانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
حسین نے کہا، ''پچھلی حکومت کے مستعفی ہوتے ہی پولیس اہلکار تھانے چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، اور اب وہ دوبارہ سنبھلنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔‘‘
تحقیق کاروں نے بغاوت کے دوران پولیس کی جانب سے وسیع پیمانے پر بربریت کا دستاویزی ثبوت پیش کیا ہے۔
ٹیک گلوبل انسٹیٹیوٹ کی پالیسی ماہر فوزیہ افروز نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس میں ایک نہتے نوجوان طالب علم عاشق الرحمان ہردئے کا قتل بھی شامل تھا، جسے ''دو پولیس گروہوں کے درمیان گھیر کر بالکل سامنے سے گولی ماری گئی۔‘‘
تقریباً 1,500 پولیس اہلکار اب سنگین فوجداری الزامات، جن میں زیادہ تر قتل کے ہیں، کا سامنا کر رہے ہیں، اور درجنوں زیرِ حراست ہیں۔ سابق آئی جی، جنہوں نے حسینہ کا ساتھ دینے کا جرم قبول کیا، کو پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ تقریباً 55 سینیئر افسران، جن پر قتل کے الزامات ہیں، بھارت فرار ہو چکے ہیں۔
لیکن ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں کی اپنی اپنی شکایات بھی ہیں۔ ہنگاموں کے دوران 44 پولیس اہلکار بھی جان سے گئے، مگر عبوری حکومت نے مظاہرین کو ''قانونی معافی‘‘ دینے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
سلطانہ رضیہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے شوہر، جو ایک پولیس انسپکٹر تھے، کو حسینہ کے فرار کے بعد پیدا ہونے والی افراتفری میں ایک مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مارے جاتے دیکھا۔
ایک درمیانے درجے کے پولیس افسر نے نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا، ''پولیس والے بھی انسان ہوتے ہیں۔‘‘
’سیاسی ہتھیار‘
عبوری حکومت، جس کی قیادت نوبیل امن انعام یافتہ محمد یونس کر رہے ہیں، نے پولیس اصلاحاتی کمیشن قائم کیا ہے، لیکن پیش رفت ابھی تک سست روی کا شکار ہے۔
بے تحاشا طاقت کے استعمال کے الزامات بدستور موجود ہیں، اور عوامی اعتماد اس قدر گر چکا ہے کہ کئی علاقوں میں ہجوم اب معمول کے مطابق خود ہی انصاف کرنے لگے ہیں۔ اکثر مشتبہ افراد کو اغوا کر کے قتل کر دیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم آئین و ثالث کیندر (مرکز برائے قانون و مصالحت) کے ابو احمد فیض الکبیر نے کہا، ''مجھے زیادہ تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ''گزشتہ 10 ماہ میں تقریباً 28 لوگ حراست میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔‘‘
انسانی حقوق گروپ ادھیکار کا کہنا ہے کہ بغاوت کے بعد ایک سال کے اندر تقریباً 300 افراد سیاسی تشدد میں مارے گئے۔
ساٹھ سالہ موٹر رکشہ ڈرائیور عالمگیر حسین کا کہنا تھا،''پولیس کو مسلسل حکومتوں نے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اور انہوں نے کبھی ملک کے قانون کی پرواہ نہیں کی۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین