بنگلہ دیشی چیف جسٹس کے ملکی عدلیہ کی آزادی سے متعلق خدشات
Irene Banos Ruiz ع ب
14 اکتوبر 2017
بنگلہ دیش کے چیف جسٹس نے ہفتے کے روز وطن سے رخصت ہوتے ہوئے ملکی عدلیہ کی آزادی سے متعلق گہرے خدشات کا اظہار کیا۔ جسٹس سریندر کمار سنہا چودہ اکتوبر کو اپنی ایک ماہ کی رخصت کے دوران ڈھاکا سے آسٹریلیا کے لیے روانہ ہو گئے۔
ملکی دارالحکومت ڈھاکا سے ہفتہ چودہ اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ملکی چیف جسٹس کی آج آسٹریلیا روانگی کے وقت اس جنوبی ایشیائی ملک میں یہ افواہیں مسلسل گردش کر رہی تھیں کہ انہیں مبینہ طور پر حکومت کی طرف سے دباؤ ڈال کر یہ رخصت لینے پر مجبور کیا گیا۔ اس مبینہ دباؤ کی وجہ چیف جسٹس سنہا کا سنایا جانے والا وہ تاریخی عدالتی فیصلہ بنا، جو ڈھاکا حکومت کی خواہشات کے برعکس تھا۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ چیف جسٹس سنہا نے اپنی عدالتی ذمے داریوں سے ایک ماہ کی جو رخصت لی تھی، اس کا آغاز چند روز قبل ہوا تھا۔ اس رخصت سے محض چند ہی ماہ قبل چیف جسٹس سنہا کی سربراہی میں ڈھاکا میں ملکی سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے بنگلہ دیشی پارلیمان کے یہ اختیارات ختم کر دیے تھے کہ یہ قانون ساز ادارہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے ارکان کو ان کے عہدوں سے ہٹا سکتا ہے۔
ملکی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو سراہنے والے ماہرین قانون کے مطابق سپریم کورٹ کا یہ اقدام ایک ایسا فیصلہ تھا، جس کے ذریعے اس مسلم اکثریتی ملک میں سیکولر عدلیہ کا تحفط کیا جا سکتا تھا۔
اے ایف پی کے مطابق آسٹریلیا کے لیے اپنے روانگی سے قبل چیف جسٹس سریندر کمار سنہا نے اپنے ایک تحریری بیان میں کہا، ’’مجھے (ملک میں) عدلیہ کی آزادی سے متعلق تشویش ہے۔‘‘ اے ایف پی کے مطابق اپنے اس بیان کے ذریعے چیف جسٹس سنہا نے اس حکومتی تنقید پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے، جس کا انہیں ملکی ججوں کی پارلیمان کی طرف سے برطرفی سے متعلق مقدمے میں فیصلے کے بعد سے سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
چودہ اکتوبر کو آسٹریلیا روانگی کے وقت چیف جسٹس سنہا نے اپنے ایک تحریری بیان میں ملکی عدلیہ کی آزادی سے متعلق خدشات کا اظہار کیاتصویر: bdnews24.com
چیف جسٹس سریندر کمار سنہا نے اپنے اس بیان میں یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ وہ 10 نومبر کو اپنی رخصت ختم ہو جانے کے بعد واپس وطن لوٹیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے بنگلہ دیشی وزیر انصاف کے ان دعووں کی بھی تردید کی کہ ان کی رخصت اور بیرون ملک روانگی کی وجہ ان کی علالت بنی۔
چیف جسٹس سنہا کے ہفتے کو جاری کیے گئے تحریری بیان کا ایک خاص پہلو ان کی طرف سے زور دے کر یہ کہا جانا بھی تھا، ’’میں بیمار نہیں ہوں۔ میں ملک سے فرار بھی نہیں ہو رہا۔ میں واپس لوٹوں گا۔ میں ملک سے عدلیہ کے بہتر مفادات کی خاطر رخصت ہو رہا ہوں۔‘‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگست میں انہوں نے جو عدالتی فیصلہ سنایا تھا، اس پر کئی سیاسی حلقوں، وکلاء، حتیٰ کہ حکومتی وزراء اور خود وزیر اعظم (شیخ حسینہ) کی طرف سے کی جانے والی تنقید بھی ان کے لیے شرمندگی کا باعث بنی۔
ڈھاکا میں بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین بار اسوسی ایشن یہ بات کئی مرتبہ کہہ چکی ہے کہ چیف جسٹس سنہا کو دباؤ ڈال کر رخصت پر جانے پر مجبور کیا گیا۔ بنگلہ دیشی سپریم کورٹ بار اسیوسی ایشن کے صدر زین العابدین کے مطابق، ’’حکومت کی طرف سے عدلیہ کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔‘‘
بنگلہ دیشی جمہوریت کے لیے مشکل دور
بنگلہ دیش میں اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود اتوار پانچ جنوری کو عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ انتخابات سے پہلے ملک گیر ہنگامے اور ہڑتالیں ایک معمول بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo
سیاسی بد امنی
پانچ جنوری کو بنگلہ دیش میں مجوزہ انتخابات سے ایک سال پہلے سے یہ ملک مسلسل احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں اور تشدد کی لپیٹ میں ہے۔ بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کے حامیوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تواتر سے تصادم ہوتا رہا ہے۔ اس جماعت کی قائد نے دسمبر کے اواخر میں انتخابات کو روکنے کے لیے ’جمہوریت کے لیے مارچ‘ کی کال دی تھی۔ مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP/Getty Images
اکثریت انتخابات کے خلاف
ڈھاکہ ٹریبیون کے ایک تازہ سروے کے مطابق ملک کے 77 فیصد شہری انتخابات کے انعقاد کے خلاف ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کی شرکت کے بغیر یہ انتخابات ناقابل قبول ہوں گے۔ اس جائزے کے مطابق 37 فیصد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
تصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP/Getty Images
کاروبارِ زندگی مفلوج
سڑکوں، ریلوے لائنوں اور آبی راستوں کی ناکہ بندی نے بنگلہ دیش کی معیشت اور عوام پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ڈھاکہ چیمبرز آف کامرس کے مطابق ایک دن کی ناکہ بندی سے ملکی معیشت کو 200 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ کسانوں کو اپنی مصنوعات منڈیوں تک پہنچانے اور ٹیکسٹائل ملوں کو اپنی مصنوعات بروقت روانہ کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔
تصویر: DW/Mustafiz Mamun
آزادانہ اور منصفانہ انتخابات؟
عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والی وزیر اعظم شیخ حسینہ (تصویر میں) اور اپوزیشن کے درمیان انتخابی عمل میں حال ہی میں متعارف کروائی جانے والی اصلاحات بھی وجہِ نزاع بنی ہوئی ہیں۔ حسینہ کے دورِ حکومت میں آئین میں ترمیم کرتے ہوئے انتخابات کے دوران ایک ایسی عبوری نگران حکومت کی تقرری سے متعلق شِق ختم کر دی گئی، جو انتخابات کے آزادانہ اور منصافنہ انعقاد کی ضمانت دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اپوزیشن سڑکوں پر
بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاء (تصویر میں) کا موقف یہ ہے کہ ایک غیر جانبدار نگران حکومت کے بغیر انتخابات غیر قانونی ہوں گے۔ اس جماعت کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل مؤثر ثابت ہوئی ہے اور اس کے حامی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ بی این پی اپنی بنیاد پرست حلیف پارٹی جماعتِ اسلامی پر لگائی جانے والی پابندی پر بھی ناراض ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
جماعتِ اسلامی پر پابندی
شیخ حسینہ کی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل نے 2013ء میں جماعتِ اسلامی کے سات رہنماؤں کو سزائے موت سنائی۔ بعد ازاں ہائیکورٹ نے اس جماعت کو کالعدم قرار دے دیا چنانچہ اب یہ جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔ اس کے سات رہنماؤں میں سے ایک عبدالقادر ملا کو، جسے 1971ء کی جنگِ آزادی کے دوران قتل عام اور آبروریزی کے لیے قصور وار قرار دیا گیا تھا، دسمبر میں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: Reuters
آخری منٹ پر انتخابات میں شرکت کا اعلان
ملک کی تیسری بڑی جماعت جاتیہ پارٹی، جس کے قائد سابق آمر حسین محمد ارشاد (تصویر میں) ہیں، ماضی میں عوامی لیگ کی حلیف رہی ہے۔ اس جماعت نے ابھی جمعرات کو اپنا انتخابی منشور جاری کیا اور یہ عندیہ دیا کہ وہ انتخابات میں حصہ لے گی۔
تصویر: JEWEL SAMAD/AFP/Getty Images
ایک نشست، ایک امیدوار
آدھے سے زیادہ انتخابی حلقوں یعنی 300 میں سے 154 پر محض عوامی لیگ یا اُس کی کسی اتحادی جماعت کا کوئی ایک امیدوار ہی انتخاب لڑ رہا ہے۔ گویا یہ امیدوار ایک بھی ووٹ کاسٹ ہونے سے پہلے کامیاب ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی ابھی سے ان 154 امیدواروں کو ڈھاکہ میں ملکی قومی اسمبلی کے لیے منتخب قرار دے چکا ہے۔