1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبنگلہ دیش

بنگلہ دیش: اپوزیشن کے ہزاروں کارکن گرفتار

27 نومبر 2023

بنگلہ دیش میں عام انتخابات سے قبل اپوزیشن جماعتوں کے خلاف ایک وسیع اور پرتشدد کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے، جس میں تقریباً دس ہزار کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

BG Proteste der politischen Parteien Bangladeschs
تصویر: FARJANA K. GODHULY/AFP/Getty Images

 

ہیومن رائٹس واچ نے پیر کو کہا ہے کہبنگلہ دیش میں عام انتخابات سے قبل اپوزیشن کو ''مقابلے کی دوڑ سے دور‘‘ رکھنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے خلاف ایک وسیع اور پرتشدد کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ہے۔ اس کریک ڈاؤن میں  تقریباً 10,000 کارکنوں کی گرفتاری بھی شامل ہے۔

 ہزاروں گرفتارشدگان میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد شامل ہیں اور ان پارٹیوں کے کارکنوں کو الزامات کا سامنا ہے۔     

ہیومن رائٹس  واچ  نے  BNP کی اطلاعات کے حوالے سے بتایا کہ اُس کے 50 لاکھ اراکین میں سے تقریباً نصف کو ''سیاسی بنیادوں پر ظلم و ستم کا سامنا ہے۔‘‘

       ایک کارکن نے ہیومن رائٹس واچ  کو بیان دیتے ہوئے کہا، ''وہ کسی کو نہیں چھوڑ رہے۔ سینیئر اراکین سے لے کر عام کارکنوں کو بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ‘‘

انسانی حقوق کے لیے سرگرم اس گروپ نے کہا کہ جیلیں اب اپنی گنجائش سے دوگنا زیادہ قیدیوں سے بھر چُکی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق تقریباً 170 ملین آبادی والے جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں 7 جنوری کو عام انتخابات منعقد ہونا ہیں جس میں وزیر اعظم شیخ حسینہ مسلسل چوتھی بار اقتدار میں آنے کی تمام تر کوششیں کر رہی ہیں۔

بنگلہ دیش کی مرکزی اپوزیشن جماعت عوامی لیگ کی سینیسر لیڈر اور سابقہ وزیر موتیا چودھری کی پولیس کے ہاتھوں پُر تشدد گرفتاریتصویر: FARJANA K. GODHULY/AFP/Getty Images

بی این پی اور دیگر جماعتوں نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے ہیں جس میں حسینہ واجد سے اقتدار چھوڑنے اور ایک غیر جانبدار حکومت کو انتخابات کرانے کا موقع دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم حکومت نے ان مطالبات کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے، ''بنگلہ دیش کے حکام اپوزیشن کو کچلنے اور عام انتخابات سے قبل مقابلے کو ختم کرنے کی واضح کوشش میں سیاسی اپوزیشن کے اراکین کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں رہے ہیں۔‘‘

بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا مسئلہ

03:14

This browser does not support the video element.

 نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ جس نے ڈھاکہ حکومت کے ان اقدام کو ''پرتشدد مطلق العنان کریک ڈاؤن‘‘ قرار دیا ہے۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں مظاہروں میں اضافے کے بعد سے کم از کم 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں دو پولیس افسران بھی شامل ہیں۔

حکومتی کریک ڈاؤن کے دوران ساڑھے پانچ ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ پر حکومت کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ حکام کا تاہم کہنا ہے کہ گرفتار کیے گئے افراد کو متعدد پرتشدد جرائم کا سامنا ہے اور انہیں انصاف کا سامنا کرنا چاہیے۔

پولیس، جس نے یہ نہیں بتایا کہ اُس نے کتنے لوگوں کو گرفتار کیا ہے، حزب اختلاف پر 29 اکتوبر سے اب تک ملک گیر ہڑتالوں اور نقل و حمل کی بندش کے دوران تقریباً 290 گاڑیوں، جن میں زیادہ تر بسیں شامل ہیں، کو نذر آتش کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔ 

 پولیس نے بتایا کہ تشدد کی اس لہر کے دوران اب تک کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اُدھر ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں متعدد گواہوں کے انٹرویوز کے ساتھ ساتھ ویڈیوز اورپولیس  رپورٹوں کے تجزیے بھی شامل کیے ہیں۔

حکومت کا اپوزیشن کے خلاف وسیع کریک ڈاؤنتصویر: FARJANA K. GODHULY/AFP/Getty Images

انسانی حقوق کے لیے سرگرم اس ادارے نے کہا کہ اسے 'ثبوت ملے ہیں کہ سکیورٹی فورسز ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال، بڑے پیمانے پر من مانی گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں، تشدد اور ماورائے عدالت قتل کی ذمہ دار ہیں‘۔

بنگلہ دیش  دنیا کے سب سے بڑے ملبوسات کے برآمد کنندگان میں سے ایک ہے، جس کی سالانہ 55 بلین ڈالر برآمدات میں تقریباً 85 فیصد حصہ ملبوسات کی برآمدات پر مشتمل ہے۔ بہت سے عالمی برانڈز بنگلہ دیش کی فیکٹریوں سے کپڑے بنواتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے، ''سفارتی شراکت داروں کو واضح کرنا چاہیے کہ کریک ڈاؤن اقتصادی تعاون کو خطرے میں ڈالے گا۔‘‘

 ہیومن رائٹس واچ کی سینیئر ایشیا ریسرچر جولیا بلیکنر نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں قابل اعتماد انتخابات نہیں کرائے جا سکتے۔ بلیکنر کے بقول، ''آزادانہ انتخابات ایک ایسے وقت میں ناممکن ہیں جب حکومت آزادانہ اظہار رائے کو روکنے اور من مانی گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں، ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے ذریعے منظم طریقے سے اپوزیشن، ناقدین اور کارکنوں کو نااہل بنا رہی ہے۔‘‘

ک م/ ع ب(اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں