1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: امیر جماعت اسلامی سمیت چَودہ کے لیے سزائے موت

امجد علی30 جنوری 2014

ایک بنگلہ دیشی عدالت نے بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے ستّر سالہ سربراہ مطیع الرحمان نظامی سمیت چَودہ افراد کو سزائے موت سنائی ہے۔ یہ سزا دَس سال پہلے بڑے پیمانے پر اسلحے کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزام میں سنائی گئی ہے۔

تصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

ملک کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی کے سربراہ کے لیے سزائے موت کے اس عدالتی فیصلے کے بعد ملک میں مزید سیاسی ہنگاموں کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس سزا کا تعلق 2004ء میں ایک بنگلہ دیشی بندرگاہ پر پکڑے جانے والے اسلحے کی بھاری مقدار سے ہے۔ تب حکام نے دَس ٹرکوں کے برابر جدید ہتھیاروں اور گولہ بارود کی شمال مشرقی بھارتی علاقوں کو اسمگلنگ ناکام بنا دی تھی۔

پراسیکیوٹر کمال الدین نے جنوبی بندرگاہی شہر چٹاگانگ سے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’ہم اس فیصلے سے مطمئن ہیں۔ یہ ایک ایسا کیس ہے، جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اور تمام ملزمان کے ساتھ انصاف کیا گیا ہے۔‘‘

پراسیکیوٹرز کے مطابق نظامی نے بندرگاہ پر اسلحہ اتارنے میں مدد فراہم کی تھی۔ اس اسلحے میں تقریباً پانچ ہزار جدید رائفلیں اور ستائیس ہزار سے زیادہ گرینیڈز بھی شامل تھے، جو سرحد پار شمال مشرقی بھارتی ریاست آسام میں ایک باغی گروپ کو فراہم کیے جانا تھے۔

مطیع الرحمان نظامی اسلحے کی اسمگلنگ کے اس کیس میں 2010ء سے پولیس کی حراست میں ہیںتصویر: Mustafiz Mamun

ان ہتھیاروں میں سے زیادہ تر بیجنگ کی ایک فیکٹری کے بنے ہوئے تھے۔ ان ہتھیاروں میں تین سو راکٹ، گرینیڈز لانچ کرنے والی دو ہزار ٹیوبیں، 6,392 میگزینز اور 1.14 ملین گولیاں بھی شامل تھیں۔

مطیع الرحمان نظامی، جو اُس زمانے میں وزیر صنعت تھے، اُن پچاس افراد میں شامل تھے، جن پر ملکی تاریخ کے سب سے بڑے گروہ کی حیثیت سے اسلحہ رکھنے اور اسمگل کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔ سزائے موت پانے والوں میں ایک سابق وزیر داخلہ کے ساتھ ساتھ دو بڑے خفیہ اداروں کے سابق سربراہان بھی شامل ہیں۔

وکیل صفائی قمر الاسلام سجاد نے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے کیونکہ یہ فیصلہ ’سیاسی محرکات‘ کی بناء پر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد ’بھارت کو خوش کرنا‘ ہے۔

اس کیس کی سماعت گزشتہ کئی برسوں سے چلی آ رہی تھی اور آج جمعرات کو اس کا فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔

مطیع الرحمان نظامی اسلحے کی اسمگلنگ کے اس کیس میں 2010ء سے پولیس کی حراست میں ہیں اور بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے اُن درجن بھر رہنماؤں میں بھی شامل ہیں، جن پر 1971ء میں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کے دوران جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

نظامی گزشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے سے جکاعت اسلامی کے سربراہ چلے آ رہے ہیں اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی اُس سابقہ حکومت کے ایک طاقتور وزیر تھے، جسے دسمبر 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار سے رخصت ہونا پڑا تھا۔

آج کے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں بنگلہ دیش اور بھارت کے مابین تعلقات مزید بہتر ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ بھارت، جس نے اس ماہ کے اوائل میں منعقدہ انتخابات میں موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی متنازعہ کامیابی کی حمایت کی تھی، ایک عرصے سے اس کیس کے فیصلے کا منتظر تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں