'انسانیت سوز جرائم' کے لیے شیخ حسینہ کو موت کی سزا
17 نومبر 2025
بنگلہ دیش کی گھریلو جنگی جرائم کی عدالت 'انٹرنیشنل کرائمز ٹرائیبیونل' نے معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کو 2024 میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے خلاف مہلک کریک ڈاؤن کا حکم دینے پر سزائے موت کی سزا سنائی ہے۔
جج غلام مرتضیٰ مجومدار نے کہا کہ حسینہ کو "تین معاملات میں قصوروار پا یا گیا ہے، جس میں اکسانا، قتل کرنے کا حکم، اور مظالم کو روکنے میں ناکامی شامل ہے۔"
جج نے مزید کہا، "ہم نے انہیں صرف ایک سزا - یعنی موت کی سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔"
اس فیصلے پر عدالت کے اندر تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا گیا۔
سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب پا یا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کے تین رکنی خصوصی جرائم کے ٹرائیبیونل نے پیر کی سہ پہر حسینہ کے خلاف مقدمے کا فیصلہ سنایا۔
فیصلہ حسینہ کی غیر حاضری میں دیا گیا اور عدالت نے انہیں مفرور قرار دیا ہے۔
تین ملزمان میں سے عدالت میں صرف ایک حاضر
سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ اور دو دیگر سابق سرکاری اہلکاروں کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں فیصلہ سنایا گیا، جس میں سے صرف ایک عدالت میں موجود رہے۔
یہ سابق پولیس انسپکٹر جنرل چودھری عبداللہ المامون ہیں۔ انہوں نے اعتراف جرم کر لیا تھا اور ریاستی گواہ بھی بن چکے ہیں۔
شیخ حسینہ معزول ہونے کے بعد بھارت فرار ہو گئی تھیں اور مقدمے کی سماعت کے لیے واپس آنے سے انکار کر دیا تھا، جبکہ تیسرے ملزم سابق وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال روپوش ہو گئے تھے اور افواہوں کے مطابق وہ بھی فرار ہو کر بھارت فرار پہنچ چکے ہیں۔
بنگلہ دیش میں بم دھماکے
اس دوران مقامی میڈیا نے ڈھاکہ میں متعدد پٹرول بموں کے دھماکوں کی اطلاعات دی ہیں۔ اس میں اتوار کے روز کابینہ کے وزیر کے برابر کے ایک مشیر کے گھر کے سامنے والا ایک دھماکہ بھی شامل ہے۔
پچھلے ایک ہفتے کے دوران ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کے دیگر مختلف علاقوں میں بھی بموں کے پھٹنے کی اطلاعات ہیں۔
یہ بنیادی طور پر پیٹرول بم ہیں، جن سے عبوری رہنما محمد یونس کی حکومت سے منسلک عمارتوں، بسوں اور عیسائی طبقے سے منسلک مقامات تک کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
حسینہ کے خلاف الزامات کیا ہیں؟
بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ پر انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام ہے۔ اس حوالے سے خصوصی ٹرائیبیونل یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا گزشتہ برس جولائی اور اگست میں ان کی مطلق العنان حکمرانی کے خلاف طلبہ کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے دوران سخت ترین کریک ڈاؤن اور مہلک پابندی کا حکم دینے کے لیے وہ ذاتی طور پر قصوروار ہیں یا نہیں۔
واضح رہے کہ حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے سینکڑوں افراد مارے گئے تھے، حالانکہ ہلاکتوں کے صحیح اعداد و شمار واضح نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کے مطابق بنگلہ دیش میں مذکورہ عوامی مظاہروں کے دوران پرتشدد جبر میں 1,400 تک افراد کی ہلاکت ممکن ہے۔ جبکہ ملک کے مشیر صحت نے یہ تعداد 800 سے کم بتائی ہے ان کے مطابق تقریباً 14,000 افراد زخمی ہوئے تھے۔
استغاثہ نے پانچ الزامات دائر کیے، جن میں قتل کو روکنے میں ناکامی بھی شامل ہے اور یہ بنگلہ دیشی قانون کے تحت انسانیت کے خلاف جرائم کے برابر ہے۔
حسینہ پانچ اگست 2024 کو ملک سے فرار ہو کر بھارت پہنچی تھیں، اور ٹرائل کے لیے بنگلہ دیش واپس جانے سے انکار کرنے کے بعد ان کی غیر موجودگی میں ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
حسینہ 1996 سے 2001 اور پھر 2009 سے 2024 تک بنگلہ دیش کی وزیر اعظم رہیں اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں انہیں ممکنہ طور پر سزائے موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حسینہ کے ساتھ دو دیگر سابق وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال اور سابق پولیس انسپکٹر جنرل چودھری عبداللہ المامون پر بھی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
حسینہ کی عوامی لیگ کی ملک گير ہڑتال کی کال
شیخ حسینہ کی سیاسی جماعت عوامی لیگ، جس پر اب پابندی عائد ہے، نے پیر کے روز ملک گیر ہڑتال کی کال دی ہے۔
حسینہ اور عوامی لیگ دونوں نے خصوصی ٹرائیبیونل کو ’’کینگرو کورٹ‘‘ قرار دیا ہے اور ریاست کی طرف سے ان کی نمائندگی کے لیے وکیل کی تقرری کی مذمت کی ہے۔
عبوری حکومت نے عوامی لیگ پر مئی میں انسداد دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت پابندی عائد کر دی تھی۔
الیکشن کمیشن نے اس پارٹی کو رجسٹرڈ شدہ سیاسی جماعتوں کی سرکاری فہرست سے نکال دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عوامی لیگ فروری 2026 میں ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گی۔
عوامی لیگ 1971 میں پاکستان سے آزادی کے بعد سے بنگلہ دیش کی اہم جماعتوں میں سے ایک رہی تھی۔
فیصلے سے قبل سکیورٹی کا سخت انتظام
فیصلے سے قبل ہی دارالحکومت ڈھاکہ میں نیم فوجی سرحدی محافظ اور اضافی پولیس فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔ فیصلے کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد جمعرات سے ہی سکیورٹی فورسز نے عدالت کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔
ڈھاکہ میونسپل پولیس کے ترجمان طالب الرحمٰن نے کہا کہ فورس دارالحکومت کے اہم چوراہوں پر چوکیوں کے ساتھ ہائی الرٹ پر ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، انہوں نے کہا کہ شہر کے تقریباً 34,000 پولیس اہلکار ڈیوٹی پر موجود ہوں گے۔ مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ بکتر بند گاڑیاں چوکیوں کا انتظام کر رہی ہیں۔
ڈھاکہ کے پولیس سربراہ شیخ محمد سجات علی کا کہنا ہے کہ اگر کوئی گاڑیوں کو نذر آتش کرنے یا بم پھینکنے کی کوشش کرتا ہے تو پولیس کو ’’نظر آتے ہی گولی مارنے‘‘ کا حکم جاری کیا گيا ہے۔
اے پی نیوز ایجنسی کے مطابق، سپریم کورٹ کے حکام نے اتوار کے روز ہی آرمی ہیڈکوارٹرز کو لکھے گئے خط میں، فیصلے سے قبل ٹرائیبیونل کے احاطے کے ارد گرد فوجیوں کی تعیناتی کی درخواست کی تھی۔
ادارت: کشور مصطفیٰ