1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتایشیا

بنگلہ دیش اور امریکہ کے مابین معاشی مذاکرات متوقع

10 ستمبر 2024

روس اور یوکرین کی جنگ نے بنگلہ دیش کی معیشت کو شدید متاثر کیا تھا۔ ملک کی عبوری حکومت کے لیے معاشی ترقی کی رفتار کو بڑھانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اب امریکہ نے اس شعبے میں ڈھاکہ حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کا اعلان کیا ہے۔

بنگلہ دیشی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس
بنگلہ دیشی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونستصویر: AP

بنگلہ دیش کے عبوریسربراہ محمد یونس نے بتایا ہے کہ امریکہ اسی ہفتے ڈھاکا کی عبوری حکومت کے ساتھ معاشی امور سے متعلق مذاکرات کرے گا۔ یہ بات انہوں نے فنانشیل ٹائمز کے ساتھ منگل کے روز شائع کیے گئے ایک انٹرویو میں بتائی۔ دوسری جانب نائب امریکی وزیر خزانہ برینٹ نائمن کے مطابق، ''امریکہ بہت پر امید ہے کہ ضروری اصلاحات کرتے ہوئے بنگلہ دیش اپنے معاشی مسائل کو حل کر سکتا ہے اور مسلسل ترقی اور خوشحالی کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔‘‘

بنگلہ دیشی طلبہ کے ملک گیر احتجاج نے نے وزیر اعظم حسینہ واجد کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیاتصویر: Rajib Dhar/AP/picture alliance

بنگلہ دیش کی باگ ڈور اس وقت نوبل انعام یافتہ محمد یونس کے ہاتھوں میں ہے، جنہوں نے گزشتہ ماہ عبوری حکومت کے سربراہ کا حلف اٹھانے کے بعد جلد از جلد ملک میں انتخابات کرانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ محمد یونس بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ کے عہدے ہر ملک گیر پر تشدد مظاہروں کے بعد سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہو کر ملک سے فرار ہونے کے بعد فائز ہوئے تھے۔

 فنانشیل ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی وزات خزانہ کا ایک وفد جلد بنگلہ دیش کا دورہ کرے گا اور اس وفد میں حکومتی اہلکار اور کاروباری افراد بھی شامل ہوں گے۔ بتایا گیا ہے کہ توقع ہے کہ اس وفد کے ارکان ڈھاکہ حکومت کے نمائندوں کے ساتھ بنگلہ دیش کی مانیٹری اور مالیاتی پالیسی کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبے اور مالیاتی نظام پر بھی بات چیت کریں گے۔ رپورٹ میں مزید کہا گہا ہے کہ یہ بات چیت اسی اختتام ہفتہ یعنی تیرہ اور چودہ ستمبر کو ڈھاکہ میں منعقد ہوں گی۔

مظاہروں کی وجہ سے بنگلہ دیش کو اقتصادی طور پر بھی بڑا نقصان اٹھانا پڑا تھاتصویر: Rajib Dhar/AP/picture alliance

روس اور یوکرین کے جنگ شروع ہونے کے بعد سے بنگلہ دیش کی 450 ارب ڈالر کی معیشت میں سست روی دیکھی گئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ درآمد کیے جانے والے ایندھن اور اشیائے خوراک کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہے۔  معیشت میں اس گراوٹ کی وجہ سے ڈھاکہ حکومت کو گزشتہ برس عالمی مالیاتی فنڈ سے ساڑھے چار بلین سے زیادہ کا امدادی پیکچ لینا پڑ گیا تھا۔

شیخ حسینہ کے دور میں بھی بڑھتی بے روزگاری اور مہنگائی نے بنگلہ دیشی نوجوانوں میں حکوت مخالف جذبات کو ہوا دی تھی۔ اس وقت ہنگاموں کے دوران کئی بڑے بڑے کاروبار بند ہو گئے تھے اور بنگلہ دیش کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والی ٹیکسٹائل کی صنعت بھی شدید متاثر ہوئی تھی اور ابھی بھی ہے۔

ش ر⁄ م ا(روئٹرز)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں