1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہبنگلہ دیش

بنگلہ دیش مزید روہنگیاؤں کو متنازع جزیرے پر منتقل کرے گا

26 مئی 2022

بنگلہ دیش نے مزید ایک لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کو ان کی مرضی کے برخلاف سابقہ غیر آباد بھاشن چار نامی جزیرے پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اقوام متحدہ نے وہاں پناہ گزینوں کی امداد میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

Bangladesch Umsiedlung von Rohingya
تصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں سے متعلق ایجنسی (یو این ایچ سی آر) کے سربراہ فلیپو گرانڈی نے بدھ کے روز ڈھاکہ میں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے بھاشن چار جزیرے پر "اپنی موجودگی کے اقدامات تیز تر کرنے" کا وعدہ کیا۔

بنگلہ دیش نے کاکسس بازار کے قریب واقع پناہ گزینوں کے حد سے زیادہ بھرے ہوئے کیمپوں پر سے دباو کم کرنے کے لیے مزید تقریباً ایک لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کو بھاشن چار جزیرے پر بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ایک وقت یہ جزیرہ غیر آباد تھا اور وہاں اکثر سیلاب آنے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔

 تقریباً نو لاکھ 20 ہزار بے گھر روہنگیائی مسلمان اس وقت بنگلہ دیش کے مختلف پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ سن 2017 میں پڑوسی ملک میانمار میں مسلم اقلیتوں کے خلاف تشدد اور فوجی کارروائی سے جان بچانے کے لیے یہ لوگ کسی طرح بنگلہ دیش پہنچے تھے۔ امریکہ میانمار میں مسلم اقلیتوں کے خلاف فوجی کارروائی کو نسل کشی قرار دیتا ہے۔

گرانڈی کا کہنا تھا،"بنگلہ دیش کی غیر حکومتی تنظیموں (این جی اوز) نے بھاشن چار جزیرے میں بہت کچھ امدادی اقدامات کیے ہیں اور اب اقو ام متحدہ کی ایجنسیاں حکومت کے ساتھ ہیں۔" انہوں نے مزید کہا،"ہمیں مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور میں اس حوالے سے حکومت کے ساتھ ہوں جس نے امدادی اقدامات تیز کرنے کی اپیل کی ہے۔"

یو این ایچ سی آر نے بھاشن چار جزیرے پر رہنے والے پناہ گزینوں کی مدد اور حفاظت کے لیے بنگلہ دیشی حکام کے ساتھ گزشتہ برس ایک معاہدہ کیا تھا۔ وہاں تقریباً 20 ہزار پناہ گزینوں کو پہلے ہی منتقل کیا جاچکا ہے۔

گرانڈی نے تاہم اعتراف کیا کہ روہنگیاوں کے لیے یو این ایچ سی آر کی طرف سے منظور شدہ سالانہ 881 ملین ڈالر کی امداد کا صرف 13 فیصد ہی انہیں مل پارہا، جو یقیناً تشویش کی بات ہے۔"میں یقیناً فکر مند ہوں، بھاشن چار میں مزید امداد کی ضرورت ہے۔ لیکن اب یوکرین اور پھر افغانستان اور بہت سارے دیگر بحران ہمارے سامنے ہیں جن کی وجہ سے ہمیں کافی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔"

تصویر: Mohammed Arakani/REUTERS

روہنگیا پناہ گزینوں کو فراموش نہ کریں

گوکہ پناہ گزینوں کی اتنی بڑی تعداد کی مدد کے لیے بنگلہ دیش کی تعریف کی جاتی رہی ہے تاہم روہنگیاوں کے لیے کوئی مستقل جگہ تلاش کرنے میں ڈھاکہ کو ابھی تک کامیابی نہیں مل سکی ہے۔  انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ روہنگیا ئی لیڈروں کو پناہ گزینوں کو بھاشن چار جزیرے پر بھیجنے کے لیے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور جن سینکڑوں لوگوں کو اس جزیرے پر بھیجا گیا ہے وہاں کی خراب حالت کے سبب سمندر کے راستے فرار ہونے کی کوشش کرنے والوں کو بنگلہ دیش پولیس گرفتار کرلیتی ہے۔

بھاشن چار جزیرہ ساحل سے تقریباً 60 کلومیٹر دور ہے اور وہاں اکثر سمندری طوفان آتے رہتے ہیں۔

گرانڈی کا کہنا تھا کہ روہنگیاوں کے لیے مستقل اور دیر پاحل صرف میانمار واپسی ہے۔ انہوں نے کہا،"میں نے جن روہنگیا پناہ گزینوں سے ملاقات کی ہے ان کا کہنا ہے کہ اگر حالات اجازت دیں تو وہ اپنے وطن واپس لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ دنیا کو ان کی بے وطنی کے بنیادی مسئلے کو حل کرنا چاہئے تاکہ ان لوگوں کا خواب حقیقت بن سکے۔" انہوں نے بین الاقوامی برادری سے روہنگیا پناہ گزینوں کو فراموش نہ کرنے کی اپیل کی۔

تصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

میانمار سے بھاگنے کا سلسلہ جاری

بنگلہ دیش نے روہنگیاوں کو کم از کم دو مرتبہ میانمار بھیجنے کی کوشش کی لیکن وہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں خطرہ اب بھی برقرار ہے اسی لیے وہاں سے پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

دریں اثنا میانمار کے حکام کا کہنا ہے کہ ایک دیگر ملک میں پناہ حاصل کرنے کے لیے سفر کے دوران روہنگیاوں کی ایک کشتی طوفان کی وجہ سے غرقاب ہوجانے سے کم از کم 16 افراد ہلاک ہوگئے۔ ہفتے کے روز میانمارکے ساحل سے دور پیش آنے والے اس واقعے میں چار افراد اب بھی لاپتہ ہیں جبکہ 35 دیگر کو بچالیا گیا ہے۔

یواین ایچ سی آر کی ایشیا ڈائریکٹر اندریکا رتواتے نے ایک بیان میں کہا،"حالیہ سانحے نے اس حقیقت کو ایک بار پھر اجاگر کردیا ہے کہ میانمار میں روہنگیا کتنے مایوسی کا شکار ہیں۔ خطرناک سفر پر جانے اور بالآخر اپنی جان گنوا دینے والے بچوں، خواتین اور مردوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھنا یقیناً افسوس ناک ہے۔"

ج ا/ ص ز (اے ایف پی، ایجنسیاں)

بھارت: روہنگیا خواتین شدید مشکلات سے دوچار

04:10

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں