1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم پر حکومتی ردعمل

2 اپریل 2024

بنگلہ دیش میں بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کافی دنوں سے جاری ہے، تاہم وزیر اعظم شیخ حسینہ اب کھل کر اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا الزام ہے کہ بھارت ڈھاکہ کی سیاست میں مداخلت کرتا رہا ہے۔

شیخ حسینہ
بنگلہ دیش میں 'بائیکاٹ انڈیا' مہم کا آغاز عام انتخابات کے دوران ہوا تھا، تاہم حالیہ دنوں میں اس میں آن لائن کافی اضافہ دیکھا گیا ہے تصویر: Wolfgang Rattay/REUTERS

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سے بھارتی اشیا کی 'بائیکاٹ انڈیا' مہم میں مزید تیزی دیکھی گئی ہے۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے سیاسی حریفوں نے یہ کہہ کر اس مہم کا آغاز کیا تھا کہ بھارت ملکی سیاست میں مداخلت کرنے کے ساتھ ہی شیخ حسینہ کی کھل کر حمایت کرتا ہے۔

بھارت بنگلہ دیش کے انتخابی نتائج سے خوش کیوں ہے؟

 شیخ حسینہ کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور انہوں نے جنوری کے انتخابات میں مسلسل چوتھی مدت کے لیے الیکشن جیتا تھا۔ لیکن اس الیکشن میں متحدہ اپوزیشن نے حصہ نہیں لیا تھا، انہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا۔

عوامی لیگ کی جیت: شیخ حسینہ پانچویں بار وزیر اعظم بنیں گی

شیخ حسینہ نے اس موضوع پر کیا کہا؟

وزیر اعظم شیخ حسینہ بائیکاٹ انڈیا کی مہم پر اب تک خاموش تھیں، تاہم اب وہ اس حوالے سے حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلٹ پارٹی (بی این پی)  پر بالخصوص شدید نکتہ چینی کر رہی ہیں۔

بنگلہ دیش ووٹنگ کا عمل مکمل، حسینہ واجد کی جیت یقینی

اب وہ 'بائیکاٹ بھارتی مصنوعات' کی مہم کی مخالفت پر کھل کر اتر آئی ہیں، جو بھارت کو ایک ''عظیم دوست'' کے طور پر سراہتی رہی ہیں۔

بنگلہ دیش میں عام انتخابات، اپوزیشن کی جانب سے ہڑتال کی کال

انہوں نے حال ہی میں ایک جلسے کے دوران خطاب کرتے ہوئے بی این پی لیڈروں پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ان سے کوئی پوچھے کہ ان کی، ''بیویوں کے پاس کتنی بھارتی ساڑیاں ہیں؟''

بنگلہ دیش میں انتخابات اور تبدیلی کی خواہش مند نوجوان نسل

ان کا کہنا تھا، ''بی این پی کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ بھارتی مصنوعات بائیکاٹ کریں۔ تو ان کی بیویوں نے جو ساڑیاں پہن رکھی ہیں اسے کیوں نہیں اتار کر پھینک دیتے۔'' ان کے جملوں پر مداحوں نے قہقہہ لگایا۔

حسینہ واجد کی مسلسل چوتھی فتح، وجہ اقتصادی ترقی یا سیاسی استحصال؟

02:28

This browser does not support the video element.

بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا، ''جب وہ اپنی پارٹی کے دفتر کے سامنے اپنی بیویوں کی بھارتی ساڑیاں جلا دیں گے، تب ہی یہ ثابت ہو گا کہ وہ واقعی بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لیے پرعزم ہیں۔''

بنگلہ دیش میں نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس اور تین دیگر افراد کو قید کی سزائیں

بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے اس موقع پر یہ بھی الزام لگایا کہ بی این پی کے رہنما اور ان کی بیویاں بھارت سے ساڑیاں خرید کر لاتے تھے اور بنگلہ دیش میں فروخت کرتے تھے۔

بھارت گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان اور بنگلہ دیش سے پیچھے

ان کا کہنا تھا، ''جب بی این پی اقتدار میں تھی، تو اس وقت میں نے ان کے رہنماؤں کی بیویوں کو گروپوں میں، بھارتی ساڑیاں خریدنے کے لیے بھارت جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ بھارتی ساڑیاں بنگلہ دیش میں فروخت بھی کرتی تھیں۔''

شیخ حسینہ نے بھارتی اشیا کے بائیکاٹ کی مہم کی مخالفت کرتے ہوئے مزید کہا، ''میرا ایک سوال اور بھی ہے۔ ہم بھارت سے گرم مسالہ، پیاز، لہسن، ادرک اور بہت سی دوسری اشیاء درآمد کر رہے ہیں۔ وہ (بی این پی رہنما) بھارتی مسالے کے بغیر کھانے کیوں نہیں پکاتے؟ انہیں ان کے بغیر کھانا پکانا اور کھانا چاہیے۔''

بنگلہ دیش میں بائیکاٹ بھارت کی مہم

بنگلہ دیش میں 'بائیکاٹ انڈیا' مہم کا آغاز عام انتخابات کے دوران ہوا تھا، تاہم حالیہ دنوں میں اس میں آن لائن کافی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ حسینہ کی جیت کے بعد بھارتی اجناس کے خلاف کچھ حد تک مزاحمت کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

ڈھاکہ کی مارکیٹیں، جو عام طور پر کوکنگ آئل، پراسیسڈ فوڈز، صفائی کا ساز و سامان، کاسمیٹکس اور کپڑے جیسی بھارتی مصنوعات سے بھری ہوتی ہیں، ان کی فروخت میں کافی کمی دیکھی گئی ہے۔ کارباریوں نے تازہ ڈیلیوری لینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اس طرح کی آن لائن مہم کی قیادت زیادہ تر وہ تارکین وطن بنگلہ دیشی کر رہے ہیں، جو یورپ اور امریکہ میں جلاوطنی میں زندگی گزار رہے ہیں۔

بی این پی شیخ حسینہ اور ان کی جماعت عوامی لیگ کو بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے۔ یہ جماعت بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات اور اس کے انتخابات میں مبینہ بھارتی مداخلت کی بھی مخالفت کرتی ہے۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

بنگلہ دیش: اپوزیشن کے بغیر الیکشن یا سلیکشن؟

03:20

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں