1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ثقافتبنگلہ دیش

بنگلہ دیش: ترک ڈرامے انتہائی مقبول، بھارت کی اجارہ داری ختم

جاوید اختر اے ایف پی کے ساتھ
14 نومبر 2025

گزشتہ کئی دہائیوں تک بنگلہ دیشی اسکرینوں پر بھارتی ٹی وی ڈراموں کا راج رہا لیکن اب ترک سوپ اوپیرا‍ز نے بھارت کی اجارہ داری ختم کردی ہے۔یہ دو مسلم اکثریتی ملکوں کے مابین بڑھتے سیاسی اور ثقافتی تعلقات کی عکاسی بھی کرتی ہے۔

ترک فلم ظفیر کا ایک منظر
حالیہ برسوں میں ترک ڈراموں نے بتدریج مارکیٹ پر بھارت کے مضبوط گرفت کو کمزور کر دیا ہےتصویر: 30th Istanbul Film Festival

بنگلہ دیش میں ترک ٹی وی سیریلز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت صرف پرائم ٹائم تفریح کو ہی تبدیل نہیں کر رہی، یہ دو مسلمان اکثریتی ممالک کے درمیان بدلتے ہوئے سیاسی اور ثقافتی تعلقات کی عکاسی بھی کرتی ہے، جو اگرچہ 5,000 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں، لیکن تجارت، سفارت کاری اور مشترکہ ثقافتی دلچسپیوں میں تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔

چند دہائیوں تک بھارتی ڈراموں نے بنگلہ دیشی اسکرینوں پر راج کیا، ان کا میلوڈرامہ، خاندانی کہانیاں اور شوخ لباس شام کے ٹی وی کا لازمی حصہ تھے۔ لیکن حالیہ برسوں میں ترک ڈرامے، جن میں جدید موضوعات، اسلامی جمالیات، مضبوط اخلاقی پہلو اور اعلیٰ معیار کی پروڈکشن کا امتزاج ہوتا ہے، نے بتدریج مارکیٹ پر بھارت کے مضبوط گرفت کو کمزور کر دیا ہے۔

ترک سیریلز کی کامیابی، جنہوں نے بھارتی ٹی وی ڈراموں کی کبھی ناقابلِ تسخیر مقبولیت کو چیلنج کیا ہے، ایک ایسی تبدیلی کا اشارہ ہے جو اسکرینوں سے کہیں آگے تک پھیلی ہوئی ہے۔

یہ بدلتے ہوئے اتحادوں اور دو مسلمان اکثریتی ممالک کے درمیان سفارتی، تجارتی اور دفاعی تعلقات کے پھیلاؤ کی بھی عکاسی کرتی ہے۔

بنگلہ دیش میں ترک ریستورانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، ترک زبان سیکھنے میں عوامی دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے، اور دونوں حکومتوں کے درمیان گرم جوشی بحال ہو رہی ہے، جب کہ ڈھاکہ اور نئی دہلی کے تعلقات زیادہ کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔

چند دہائیوں تک بھارتی فلموں اور ڈراموں نے بنگلہ دیشی اسکرینوں پر راج کیاتصویر: Dinodia Photo Library/picture-alliance

نئے مواقع

ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر محمد انوارالعظیم کا کہنا ہے کہ انقرہ اور ڈھاکہ کے تعلقات ہمیشہ ہموار نہیں رہے، لیکن اب یہ ''مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ ''یہ تعلق دو بار کمزور ہوا‘‘۔ پہلی بار 1971 میں، جب بنگلہ دیش نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کی، اور دوسری بار 2013 میں، جب ڈھاکہ نے آزادی کی جنگ کے دوران جنگی جرائم کے الزام میں متعدد افراد کو پھانسی دی۔

دو طرفہ تجارت اب بھی محدود ہے، لیکن عظیم کا کہنا تھا کہ ترکی بنگلہ دیش کو ایک ایسا متبادل فراہم کرتا ہے جو اس کی چین پر بطور مرکزی اسلحہ فراہم کنندہ انحصار کو کم کر سکتا ہے۔

انقرہ کی دفاعی صنعت کے سربراہ حلوک گورگون نے جولائی میں ڈھاکہ کا دورہ کیا، اور بنگلہ دیشی آرمی چیف جنرل وقارالزمان اس ماہ کے آخر میں ترکی جانے والے ہیں تاکہ فوجی ساز و سامان کی تیاری پر بات چیت کر سکیں۔

بنگلہ دیش نے ترک ڈرونز میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے، وہی ٹیکنالوجی جو رپورٹس کے مطابق انقرہ پاکستان کو فراہم کر چکا ہے، جو بھارت کا حریف ملک ہے۔

بنگلہ دیش کے عبوری رہنما اور نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس نے کہا کہ وہ اس ماہ ترک پارلیمانی وفد سے ملاقات کے بعد انقرہ کے ساتھ تعلقات کو ''مزید گہرا کرنے پر توجہ مرکوز‘‘ کیے ہوئے ہیں۔

یونس نے کہا، ''بنگلہ دیش اپنے عوام کے لیے نئے مواقع کھولنے کے لیے ترکی کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘

ثقافت، کپڑے اور گھڑسواریاں

سرکاری تعلقات کے ساتھ ساتھ ثقافتی روابط بھی مزید گہرے ہو رہے ہیں۔

اعجازالدین احمد، جو اس چینل کے پروگرامنگ سربراہ ہیں، جس نے بنگلہ دیش میں ترک ڈراموں کی بنیاد رکھی، نے کہا کہ 'دیپتو ٹی وی‘ کے پاس ''مترجمین، اسکرپٹ رائٹرز، وائس اوور آرٹسٹس اور ایڈیٹرز کی ایک خصوصی ٹیم‘‘ ہے جو بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے میں مصروف ہے۔

احمد نے بتایا، سن دو ہزار سترہ میں ان کے چینل کو ایک ترک تاریخی ڈرامے کے ذریعے بڑی کامیابی ملی، جس نے بھارتی سیریلز کو پیچھے چھوڑ دیا اور مقبولیت کے لحاظ سے''سب کو مات دے دی۔‘‘

اس کامیابی کے بعد، دیپتو ٹی وی اور دیگر بنگلہ دیشی نشریاتی اداروں نے مزید ترک ڈرامے خریدنے شروع کیے، جن میں عثمانی دور کی کہانیوں سے لے کر جدید خاندانی ڈراموں تک شامل ہیں۔

ترک زبان میں دلچسپی بھی اسی رفتار سے بڑھی ہے، اور اب کئی بڑے ادارے اس کے کورسز پیش کر رہے ہیں۔

جگن ناتھ یونیورسٹی کے ٹرینر اور اکنامکس لیکچرر شیخ عبدالقادر نے کہا، ''میرے پاس ایک ہی بیچ میں 20 طالب علم ہیں، لوگوں کی دلچسپی اور طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘

کچھ لوگوں کے لیے ترک ثقافت سے محبت یہیں ختم نہیں ہوتی۔

تینتیس سالہ کاروباری خاتون تاہیہ اسلام نے ترک طرز پر مبنی کپڑوں کا برانڈ لانچ کیا ہے، اور عثمانی روایات سے متاثر ہو کر گھڑ سواری بھی شروع کر دی ہے۔

انہوں نے کہا، ''عثمانی دور میں جوڑے گھوڑے پر نکلتے تھے۔ اب میرے شوہر بھی سوار ہوتے ہیں، اور میرا اپنا گھوڑا بھی ہے۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں