گزشتہ کئی دہائیوں تک بنگلہ دیشی اسکرینوں پر بھارتی ٹی وی ڈراموں کا راج رہا لیکن اب ترک سوپ اوپیراز نے بھارت کی اجارہ داری ختم کردی ہے۔یہ دو مسلم اکثریتی ملکوں کے مابین بڑھتے سیاسی اور ثقافتی تعلقات کی عکاسی بھی کرتی ہے۔
حالیہ برسوں میں ترک ڈراموں نے بتدریج مارکیٹ پر بھارت کے مضبوط گرفت کو کمزور کر دیا ہےتصویر: 30th Istanbul Film Festival
اشتہار
بنگلہ دیش میں ترک ٹی وی سیریلز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت صرف پرائم ٹائم تفریح کو ہی تبدیل نہیں کر رہی، یہ دو مسلمان اکثریتی ممالک کے درمیان بدلتے ہوئے سیاسی اور ثقافتی تعلقات کی عکاسی بھی کرتی ہے، جو اگرچہ 5,000 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں، لیکن تجارت، سفارت کاری اور مشترکہ ثقافتی دلچسپیوں میں تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔
چند دہائیوں تک بھارتی ڈراموں نے بنگلہ دیشی اسکرینوں پر راج کیا، ان کا میلوڈرامہ، خاندانی کہانیاں اور شوخ لباس شام کے ٹی وی کا لازمی حصہ تھے۔ لیکن حالیہ برسوں میں ترک ڈرامے، جن میں جدید موضوعات، اسلامی جمالیات، مضبوط اخلاقی پہلو اور اعلیٰ معیار کی پروڈکشن کا امتزاج ہوتا ہے، نے بتدریج مارکیٹ پر بھارت کے مضبوط گرفت کو کمزور کر دیا ہے۔
ترک سیریلز کی کامیابی، جنہوں نے بھارتی ٹی وی ڈراموں کی کبھی ناقابلِ تسخیر مقبولیت کو چیلنج کیا ہے، ایک ایسی تبدیلی کا اشارہ ہے جو اسکرینوں سے کہیں آگے تک پھیلی ہوئی ہے۔
یہ بدلتے ہوئے اتحادوں اور دو مسلمان اکثریتی ممالک کے درمیان سفارتی، تجارتی اور دفاعی تعلقات کے پھیلاؤ کی بھی عکاسی کرتی ہے۔
بنگلہ دیش میں ترک ریستورانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، ترک زبان سیکھنے میں عوامی دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے، اور دونوں حکومتوں کے درمیان گرم جوشی بحال ہو رہی ہے، جب کہ ڈھاکہ اور نئی دہلی کے تعلقات زیادہ کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔
چند دہائیوں تک بھارتی فلموں اور ڈراموں نے بنگلہ دیشی اسکرینوں پر راج کیاتصویر: Dinodia Photo Library/picture-alliance
نئے مواقع
ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر محمد انوارالعظیم کا کہنا ہے کہ انقرہ اور ڈھاکہ کے تعلقات ہمیشہ ہموار نہیں رہے، لیکن اب یہ ''مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔‘‘
اشتہار
انہوں نے بتایا کہ ''یہ تعلق دو بار کمزور ہوا‘‘۔ پہلی بار 1971 میں، جب بنگلہ دیش نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کی، اور دوسری بار 2013 میں، جب ڈھاکہ نے آزادی کی جنگ کے دوران جنگی جرائم کے الزام میں متعدد افراد کو پھانسی دی۔
دو طرفہ تجارت اب بھی محدود ہے، لیکن عظیم کا کہنا تھا کہ ترکی بنگلہ دیش کو ایک ایسا متبادل فراہم کرتا ہے جو اس کی چین پر بطور مرکزی اسلحہ فراہم کنندہ انحصار کو کم کر سکتا ہے۔
انقرہ کی دفاعی صنعت کے سربراہ حلوک گورگون نے جولائی میں ڈھاکہ کا دورہ کیا، اور بنگلہ دیشی آرمی چیف جنرل وقارالزمان اس ماہ کے آخر میں ترکی جانے والے ہیں تاکہ فوجی ساز و سامان کی تیاری پر بات چیت کر سکیں۔
بنگلہ دیش نے ترک ڈرونز میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے، وہی ٹیکنالوجی جو رپورٹس کے مطابق انقرہ پاکستان کو فراہم کر چکا ہے، جو بھارت کا حریف ملک ہے۔
بنگلہ دیش کے عبوری رہنما اور نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس نے کہا کہ وہ اس ماہ ترک پارلیمانی وفد سے ملاقات کے بعد انقرہ کے ساتھ تعلقات کو ''مزید گہرا کرنے پر توجہ مرکوز‘‘ کیے ہوئے ہیں۔
یونس نے کہا، ''بنگلہ دیش اپنے عوام کے لیے نئے مواقع کھولنے کے لیے ترکی کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘
مشہور ڈرامہ سیریل ’ارطغرل غازی‘ کے دیس میں
پاکستان میں آج کل ہر سو ترک ڈرامه سیریل ارطغرل غازی کا ڈنکا بج رہا ہے۔ اردو ڈبنگ کے ساتھ نشر کیے جانے والا یہ تاریخی ڈرامہ پانچ سیزن پر مشتمل ہے۔ اس ڈرامے کا مرکزی کردار قبائلی سردار ارطغرل غازی ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
ارطغرل غازی کا مقبرہ
ترکی کے شہر استبنول سے تقریبا تین گھنٹے کی مسافت پر بیلیچک صوبے میں سوعوت کا قصبه واقع ہے۔ مقامی پہاڑی سلسلے کے خم دار اور پرپیچ راستوں پر واقع یہ چھوٹا سا قصبہ اپنے دامن میں صدیوں کی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ اس کی ایک نشانی یہاں قائم سلطنت عثمانیہ کی داغ بیل ڈالنے والے کائی قبیلے کے سردار ارطغرل غازی (1188-1281) کا مقبرہ ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
ڈرامه سیریل ارطغرل غازی
ڈرامه سیریل ارطغرل غازی کا مرکزی خیال سلطنت عثمانیہ کے قیام میں سے قبل بارهویں اور تیرھویں صدی عیسوی کے ان حالات پر مبنی ہے جو آگے چل کر سلطنت عثمانیہ کے قیام کا سبب بنے۔
تصویر: DW/S. Raheem
ارطغرل کا احیا
چودہ ہزر نفوس پر مشتمل پر یہ قصبہ تقریبا دو سال قبل تک تقریباﹰ گمنامی کا شکار تھا اور شاذونادر ہی کسی سیاح کی اس طرف آمد ہوتی تھی۔ لیکن پھرپانچ سال قبل ترکی کے سرکاری ٹی وی ٹی آرٹی کی پیشکش ڈرامہ سیریل ’’ارطغرل کا احیا‘‘ نے اس قصبے کو گمنامی سے نکال کر ایک مرتبہ پھر دنیا کی نظروں میں لا کھڑا کیا ہے
تصویر: DW/S. Raheem
روایتی لباس میں حفاظت
مقبرے کے باہر مقامی کائی قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی چاق و چوبند ٹولیاں اپنے صدیوں پرانے روایتی لباس میں ملبوس اور ہتھیاروں سے لیس ہو کر حفاظتی ڈیوٹیاں سر انجام دیتی ہیں۔ انہیں دیکھنے والے ایک لمحے کے لیے وقت کی قید سے آزاد ہو کر خود کو آٹھ صدیوں قبل کے ماحول میں پاتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
خاک بھی موجود
ارطغرل کی قبر کے پہلو میں سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر رہنے والے تمام ممالک سے لائی گئی خاک کو بڑی ترتیب کے ساتھ چھوٹی چھوٹی ڈبیاوں میں سجا کر رکھا گیا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
پرچم بھی نصب
اس کے علاوہ اس مزار میں ان ممالک کے پرچم بھی ایستادہ کیے گئے ہیں، جن میں ترک زبان بولنے والے ایک بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
پاکستانی سیاح
مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار کے مطابق مشرق وسطی، افریقہ اور ایشیائی ممالک خصوصاﹰ پاکستان سے سیاح گزشتہ دو سالوں سے تواتر کے ساتھ سوعوت کے قصبے کا رخ کر رہے ہیں۔ ان کے لیے یہاں سبب سے بڑی کشش بلاشبہ ارطغرل غازی کا مقبرہ ہے۔ یہ سن 1886 تک ایک عام قبر کی طرح ہی تھا لیکن پھر اسے عثمانی سلطان عبدالحمید دوئم نے ایک مقبرے کی شکل دی۔
تصویر: DW/S. Raheem
مقامی انداز میں تصاویر
یہ منظر بھی یہاں آئے سیاحوں کی اس مقام سے جڑی توقعات پوری کرنے میں بھر پور مدد کرتا ہے۔ ان کے اندر شوقین افراد کے لئے مقامی انداز میں ڈھل کر فوٹو کھچوانے کی سہولت بھی مہیا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
ارطغرل سب سے بڑی وجہ
یہاں آنے والے سیاحوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ان کے سوعوت سے تعارف کی وجہ ڈرامہ سیریل ارطغرل کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ارطغرل کے عکس بندی اور خصوصاﹰ اس میں دکھائے گئے کائی قبیلے کی بودوباش اور رہن سہن کے طریقوں سے اتنے محصور ہوئے کہ انہوں نے سوعوت آنے کی ٹھان لی۔
تصویر: DW/S. Raheem
خیمے توجہ کا مرکز
یہاں کاروبار کرنے والوں نے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کائی قبیلے کے زیر استعمال صدیوں پرانے خیموں کو بھی ایک مرتبہ پھر آباد کر رکھا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
کورونا کا سیاحت پر اثر
مقامی منتظمین کا کہنا ہے کہ دو سال قبل یہاں آنے والے سیاحوں کی ماہانہ تعداد چار سے پانچ سو کے درمیان تھی تاہم کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل یہ تعداد بڑھ کر چار ہزار ماہانہ تک جا پہنچی تھی۔ تاہم اب جہاں کورونا وائرس نے دنیا بھر میں سیاحت کی صنعت کو متاثر کیا ہے وہیں ترکی میں بھی اس صنعت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
یادگاری اشیا
اس قصبے میں اب یادگاری اشیا کی دوکانیں یا سوئینیر شاپس بھی تیزی سے اپنا کاروبار جما رہی ہیں۔ ان دوکانوں پر آپ کو چمڑے سے تیار کیے گئے کائی قبیلے کے روایتی لباس، روزمرہ استعمال کی دیگر اشیا کے ساتھ ساتھ ہتھیار اور خواتین کے پہناوے اور جیولری کا سامان دستیاب ہوتا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
کائی قبیلے کا پرچم
دو تیروں اور ایک کمان پر مشتمل کائی قبیلے کا پرچم آپ کو یہاں جگہ جگہ لہراتا نظر آتا ہے۔ اکثر یادگاری اشیا جیسے کہ مختلف قسم کی ٹوپیوں، ٹی شرٹس اور کی چین وغیرہ پر بھی آپ کو یہ نشان بنا ہوا ضرور نظر آئے گا۔
تصویر: DW/S. Raheem
اہلیہ بھی احاطے میں دفن
ارطغرل کے مزار کے احاطے میں ان کی اہلیہ حلیمہ خاتون، دوسرے بیٹے سیوجی بے کے علاوہ چودہ دیگر قریبی رفقا کا کی قبریں بھی ہیں۔ ان کی اہلیہ حلیمہ خاتون کو ارطغرل ڈرامے میں ایک موثر کردار میں پیش کیا گیا ہے، جو ہر مشکل اور فیصلہ کن گھڑی میں اپنے خاوند کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
14 تصاویر1 | 14
ثقافت، کپڑے اور گھڑسواریاں
سرکاری تعلقات کے ساتھ ساتھ ثقافتی روابط بھی مزید گہرے ہو رہے ہیں۔
اعجازالدین احمد، جو اس چینل کے پروگرامنگ سربراہ ہیں، جس نے بنگلہ دیش میں ترک ڈراموں کی بنیاد رکھی، نے کہا کہ 'دیپتو ٹی وی‘ کے پاس ''مترجمین، اسکرپٹ رائٹرز، وائس اوور آرٹسٹس اور ایڈیٹرز کی ایک خصوصی ٹیم‘‘ ہے جو بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے میں مصروف ہے۔
احمد نے بتایا، سن دو ہزار سترہ میں ان کے چینل کو ایک ترک تاریخی ڈرامے کے ذریعے بڑی کامیابی ملی، جس نے بھارتی سیریلز کو پیچھے چھوڑ دیا اور مقبولیت کے لحاظ سے''سب کو مات دے دی۔‘‘
اس کامیابی کے بعد، دیپتو ٹی وی اور دیگر بنگلہ دیشی نشریاتی اداروں نے مزید ترک ڈرامے خریدنے شروع کیے، جن میں عثمانی دور کی کہانیوں سے لے کر جدید خاندانی ڈراموں تک شامل ہیں۔
ترک زبان میں دلچسپی بھی اسی رفتار سے بڑھی ہے، اور اب کئی بڑے ادارے اس کے کورسز پیش کر رہے ہیں۔
جگن ناتھ یونیورسٹی کے ٹرینر اور اکنامکس لیکچرر شیخ عبدالقادر نے کہا، ''میرے پاس ایک ہی بیچ میں 20 طالب علم ہیں، لوگوں کی دلچسپی اور طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
کچھ لوگوں کے لیے ترک ثقافت سے محبت یہیں ختم نہیں ہوتی۔
تینتیس سالہ کاروباری خاتون تاہیہ اسلام نے ترک طرز پر مبنی کپڑوں کا برانڈ لانچ کیا ہے، اور عثمانی روایات سے متاثر ہو کر گھڑ سواری بھی شروع کر دی ہے۔
انہوں نے کہا، ''عثمانی دور میں جوڑے گھوڑے پر نکلتے تھے۔ اب میرے شوہر بھی سوار ہوتے ہیں، اور میرا اپنا گھوڑا بھی ہے۔‘‘