بنگلہ دیش، جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرنے کے لیے قانون سازی
18 فروری 2013اتوار کے دن ملکی پارلیمان سے منظور کی جانے والی ان ترامیم کو جماعت اسلامی پر پابندی کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ جیسے ہی ان ترامیم کی خبر عام ہوئی، ڈھاکا میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی ’ جماعت اسلامی‘ پر پابندی عائد کی جائے، جن کے متعدد ممبران 1971ء کی جنگ آزادی کے دوران مبینہ طور پر جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔
بنگلہ دیش کے وزیر قانون شفیق احمد نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ اس نئے قانون کے تحت، ’کسی بھی تنظیم بشمول جماعت اسلامی کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے گی‘۔ ان کا کہنا تھا کہ خصوصی جنگی عدالت میں ہونے والی اس کارروائی کے نتیجے میں اگر وہ مجرم قرار پائی گئی تو اسے سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا جائے گا۔ قبل ازیں صرف افراد کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے چلائے جا سکتے تھے۔
نائب وزیر قانون قمر الاسلام نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرنے کی طرف یہ ایک قدم ہے۔‘‘ یہ نئی پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب ایک روز قبل سیکولر خیالات کی مالک وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے عندیہ دیا تھا کہ وہ جماعت اسلامی پر پابندی کی حمایت کریں گی۔
موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمان نے 1970ء کی دہائی میں جماعت اسلامی پر جزوی طور پر پابندی عائد کی تھی۔ اس اسلامی سیاسی پارٹی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے قیام کے حق میں نہیں تھی اور اس نے جنگ آزادی کے دوران مبینہ طور پر ڈھائے جانے والے ظلم و جبر میں پاکستان کی مدد کی تھی۔ تاہم 1975ء میں بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعد فوجی حکومت نے اس پابندی کو ہٹا دیا تھا۔
خوشیاں اور مظاہرے
جہاں اس قانون کے حق میں گزشتہ دو ہفتوں سے ڈھاکا سمیت مختلف شہروں میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں، وہیں جماعت اسلامی کے حامی اس قانون کے مخالفت میں سراپا احتجاج تھے۔ اسی دوران ہفتے کے دن پولیس اور جماعت اسلامی کے اسٹوڈنٹس ونگ کے ممبران کے مابین ہونے والے تصادم کے نتیجے میں تین افراد مارے گئے تھے۔
حسینہ واجد کی قیادت میں بنگلہ دیش کی سیکولر حکومت جنگی جرائم میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف ایک خصوصی ٹربینول میں مقدمے چلا رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں اس عدالت نے جماعت اسلامی کے دو سابق رہنماؤں کو سزائیں سنائی ہیں۔
اسی اسلامی جماعت کے مزید آٹھ افراد کو 1971ء کی جنگ آزادی کے دوران کیے جانے والے مبینہ جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن ’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی‘(بی این پی) کے دو ممبران کوبھی ایسے ہی الزامات کا سامنا ہے۔
اتوار کے دن ڈھاکا میں منعقد کیے گئے ایک احتجاجی مظاہرے میں شامل اسلام پسندوں کے خلاف مظاہروں کا انعقاد کرانے والے ایک بلاگر محبوب رشید نے اس نئے قانون کی منظور ی پر تبصرہ کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ جزوی طور پر ایک کامیابی ہے۔ لیکن ہم اپنے مظاہروں کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھیں گے، جب تک جماعت اسلامی اور اس کے اسٹوڈنٹس ونگ پر پابندی عائد نہیں کر دی جاتی۔‘‘
دوسری طرف جماعت اسلامی اور بی این پی کا کہنا ہے کہ ان کے ممبران پر عائد تمام تر الزامات بے بنیاد ہیں اور سیاسی مقاصد کے لیے گھڑے گئے ہیں۔ اسی طرح انسانی حقوق کے کئی بین الاقوامی ادارے بھی ڈھاکا حکومت کی طرف سے جنگی جرائم کے لیے بنائے گئے ٹربینول کی شفافیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ab/ng(AFP)