آزادی کے بغیر صحافت پروپیگنڈا ہے۔ بنگلہ دیشی فوٹوگرافر شاہد العالم کے مطابق بدقسمتی سے بنگلہ دیش میں پریس کو بہت ہی کم آزادی حاصل ہے اور یہ زیادہ تر سیاسی یا معاشی طاقت رکھنے والوں کے کنٹرول میں ہے۔
اشتہار
شاہد العالم کے مطابق ان تسلیم شدہ حقائق کے باوجود کہ پابندیوں میں جکڑا اور قدغنوں کا شکار میڈیا لوگوں کا نہ تو اعتماد جیت سکتا ہے اور نہ ہی وہ عوامی رائے پر کسی طرح اثر انداز ہو سکتا ہے اب بھی دنیا کی کئی حکومتیں ملک میں صحافیوں کو آزادانہ طور پر کام کرنے سے روکتی ہیں۔ آج کے دور میں عوام محض کسی ایک میڈیا تک محدود نہیں ہیں۔ لوگوں کی زبانی بات چیت کے علاوہ لوگ ایسے بلاگز پر بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں، جن کا مقصد عوامی مفاد کے لیے حکومتوں اور اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔
شاہد العالم کہتے ہین کہ پریس کی آزادی تکلیف دہ ہو سکتی ہے اور بعض لوگ تو ایسے بھی ہوتے ہیں، جو پریس کو پریشانیوں کی جڑ سمجھتے ہیں مگر اس کی آزادی کو صرف اسی صورت میں محدود کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے جب یا تو یہ ’اخلاقی حدود‘ کو پار کر جائے یا پھر اس کے اقدامات کے باعث عوامی نقصان ہونے کا اندیشہ ہو۔ رہی یہ بات کہ ان حدود اور اس بات کا تعین کون کرے گا تو یہ چیز بذات خود ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔
پریس اور عوام کے لیے آزادی اظہار کے معاملے کو حکومت، ادروں، سیاسی اور مذہبی گروپوں جیسے طاقت ور فورسز کی طرف سے کھلے اور ڈھکے چھپے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ ویسے تو ایسا شاید پوری دنیا میں ہی ہوتا ہے لیکن بنگلہ دیش جیسے ملک میں جہاں مشکوک انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار میں آنے والی حکومت کی قانونی حیثیت پر ہی سوالیہ نشان لگا ہو وہاں سوچ پر پابندی لگانے کا معاملہ اور بھی زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔
آزادی صحافت کی درجہ بندی: چھ پس ماندہ ترین ممالک
آئے دن صحافی اور بلاگرز پر حملے ہوتے ہیں اور انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اس بار اس دن کے حوالے سے میڈیا کی آزادی کے دشمن سمجھے جانے والے دنیا کے چھ بدترین ممالک کی صورتحال پر روشنی ڈالی ہے۔
تصویر: Fotolia/picsfive
شام میں آزادی صحافت کو درپیش مسائل
صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت سے اب تک متعدد صحافی اور بلاگرز یا تو مار دیے گئے ہیں یا تعاقب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کئی سالوں سے شام کو پریس کی آزادی کا دشمن ملک کہتی آئی ہے۔ شام میں حکومت ہی نہیں بلکہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو اور النصرہ فرنٹ، جو اسد کے خلاف لڑ رہے ہیں، بھی شامی حکومتی میڈیا کے صحافیوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
تصویر: Abd Doumany/AFP/Getty Images
چین میں پریس کی آزادی کا فقدان
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق چین صحافیوں اور بلاگرز کے لیے سب سے بڑی جیل کے مانند ہے۔ آمرانہ حکومت رائے کی آزادی کی سخت دشمن ہے۔ وہاں غیر ملکی صحافیوں پر دباؤ بھی روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ملک کے کچھ حصے ان کے لیے بند ہیں۔ صحافیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور انٹرویو دینے والوں اور معاونین کو اکثر و بیشتر حراست میں لے لیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
ویت نام، حکومت کے ناقدین کے خلاف جنگ
ویت نام میں آزاد میڈیا کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ واحد حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی صحافیوں کو بتاتی ہے کہ انہیں کیا شائع کرنا چاہیے۔ ناشر، مدیر اور صحافیوں کا پارٹی ممبر ہونا لازمی ہے۔ بلا گرز حکام کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی اجارہ داری کے خلاف لکھنے والے بلاگرز کو سنگین نتائج کا سامنا ہوتا ہے۔
تصویر: picture alliance/ZB/A. Burgi
ترکمانستان، خطرناک صورتحال
ترکمانستان کے صدر سرکاری میڈیا پر قابض ہیں۔ استثنا محض اخبار’ریسگال‘ کو حاصل ہے، تب بھی اس کا ہر ایڈیشن صدر کے حکم سے شائع ہوتا ہے۔ اس ملک میں میڈیا پر اجارہ داری کے خلاف ایک نیا قانون بھی جاری ہو گیا ہے، جس کے بعد سے ترکمانستان کے عوام کی غیر ملکی خبر ایجنسیوں تک رسائی ممکن ہو گئی ہے۔ انٹرنیٹ حکومت کے کنٹرول میں ہے اور زیادہ تر ویب سائٹس بلاک کر دی گئی ہیں۔
تصویر: Stringer/AFP/Getty Images
شمالی کوریا، آمر حاکم کی حکمرانی میں
’پریس کی صحافت‘ کی اصطلاح سے شمالی کوریا کا کوئی واستہ نہیں۔ اس ریاست میں آزاد رپورٹننگ صحافیوں کے لیے ناممکن ہے۔ ساری دنیا سے کٹے ہوئے آمر حکمران کم یونگ اُن اپنے میڈیا پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ یہاں محض حکومتی نشریاتی ادارہ ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز چلا رہا ہے، جس نے اپنی آزاد رائے کا اظہار کیا وہ اپنی فیملی سمیت سنگین مشکلات سے دو چار ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Yonhap/Kcna
اریتریا، افریقہ کا شمالی کوریا
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے افرقیہ کے آمر حکمرانی والے ملک اریتریا کو اپنی اس فہرست میں سب سے آخری نمبر پر رکھا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق دنیا کے کسی دوسرے ملک میں صحافت کے ساتھ اتنا بُرا سلوک نہیں ہو رہا ہے، جتنا اس افریقی ریاست میں۔ بمشکل ہی اس بارے میں مقامی میڈیا کی کوئی رپورٹ سامنے آتی ہے۔ بہت سے صحافیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Juinen
6 تصاویر1 | 6
بنگلہ دیشی میڈیا کے لیے بعض چیزیں سے ہمیشہ سے ممنوعہ رہی ہیں۔ شاہد العالم کا کہنا ہے کہ فوج پر تو بات نہیں ہو سکتی، ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں کیونکہ میڈیا کو اشتہارات فراہم کرتی ہیں اس لیے ان پر بھی عام طور پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی۔ یہاں تک امدادی تنظیموں اور بذات خود میڈیا کے بارے میں بھی بہت احتیاط سے بات کی جاتی ہے۔ تاہم اب سرکاری میڈیا چینلز بھی ڈھاکہ حکومت کے لیے پراپیگنڈا کا ایک ہتھیار بن گئے ہیں۔ حکومت پر تنقید کرنے والے لوگوں کو ٹاک شوز میں مدعو نہیں کیا جاتا۔ ایسے اینکر جو اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اچھی تصویر کشی کرنے والے سوالات پوچھتے ہیں وہ سب سے زیادہ مقبول ہیں۔
یہ سب بلاشبہ پریشان کرنے والے معاملات ہیں، لیکن میڈیا کمپنیوں کو براہ راست دھمکیاں، مشکلات پیدا کرنے والے ایڈیٹرز کی گرفتاریاں اور صحافیوں اور بلاگرز پر حملے اس سے بھی بڑی پریشانی کا سبب ہیں۔ حالیہ دنوں میں حکام کی جانب سے ’عدالت کی توہین‘ کے الزامات نے بھی دراصل خوف کی فضا کو بڑھایا ہے۔ عدم برداشت کے اس ماحول میں آزاد سوچ رکھنے والے بہت سے افراد پر تشدد خاتمے کا شکار ہوئے ہیں۔ آزادی سوچ کو فروغ دینے کی جس قدر ضرورت آج ہے، اتنی ماضی میں پہلے کبھی نہیں رہی تھی اور آزاد سوچ رکھنا جتنا خطرناک آج ہے اتنا پہلے کبھی نہ تھا۔
شاہد العالم بنگلہ دیشی فوٹو گرافر اور سماجی کارکن ہیں۔ 1955ء میں ڈھاکا میں پیدا ہونے والے العالم نے اپنے آرٹ کو سماجی اور فنکارانہ جدوجہد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان کی حالیہ نمائش ’کراس فائر‘ کو بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی ہے تاہم پولیس نے کچھ وقت کے لیے اس بند کرا دیا، جس کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے۔