بنگلہ دیش روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دے، اقوام متحدہ
عاطف بلوچ، روئٹرز
29 اگست 2017
میانمار میں شورش کے باعث بنگلہ دیش فرار ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کو خطرناک حالات کا سامنا ہے جبکہ ڈھاکا حکومت انہیں واپس میانمار دھکیلنے کی کوشش میں ہے۔ اقوام متحدہ نے اس صورتحال پر سخت تشوش کا اظہار کیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اقوام متحدہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی کرنے والے روہنگیا مسلمان افراد کو دوہرے خطرے کا سامنا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک طرف سے حفظان صحت کی ناکارہ سہولیات کے باعث یہ بیمار ہو سکتے ہیں جبکہ ساتھ ہی ڈھاکا حکومت انہیں میانمار میں شورش کے باوجود واپس روانہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ اقوام متحدہ نے اپیل کی ہے کہ ایسے روہنگیا افراد کو، جو تشدد سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں، انہیں وہیں رہنے دیا جائے۔
میانمار سے روہنگیا مسلمانوں کی ہجرت کا سلسلہ بدستور جاری
01:03
شمالی میانمار میں واقع راکھین ریاست میں جمعے کے دن روہنگیا جنگجوؤں کی طرف سے سکیورٹی فورسز پر منظم حملوں کے بعد یہ تازہ بحران پیدا ہوا ہے۔
ان حملوں کے بعد میانمار کی حکومت نے ان جنگجوؤں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس صورتحال میں روہنگیا کمیونٹی کے افراد بھی متاثر ہوئے اور وہ جوق در جوق بنگہ دیش کا رخ اختیار کر رہے ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اس تشدد کے نتیجے میں کم از کم ایک سو نو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق میں زیادہ تر جنگجو ہی شامل ہیں لیکن ان جھڑپوں میں سکیورٹی فورسز کے کچھ اہلکاروں کے علاوہ شہری بھی مارے گئے ہیں۔
بنگلہ دیش میں پہلے ہی چار لاکھ روہنگیا مسلمان پناہ لیے ہوئے ہیں، جو میانمار میں نوے کی دہائی سے شروع ہونے ظلم و ستم سے فرار ہوئے تھے۔ تاہم اب ڈھاکا حکومت کا موقف ہے کہ وہ مزید پناہ گزینوں کو قبول نہیں کرے گا۔
بنگلہ دیشی بارڈر گارڈز کے ایک اعلیٰ اہلکار نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ گزشتہ دو دنوں کے دوران پانچ سو پچاس روہنگیا افراد کو واپس روانہ کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوٹیرش کی اپیل کے باوجود ڈھاکا حکومت مزید روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش داخل ہونے سے روک رہی ہے۔ امدادی اداروں کے مطابق تاہم گزشتہ کچھ دنوں کے دوران تقریبا پانچ ہزار روہنگیا افراد بنگلہ دیش میں داخل ہو چکے ہیں۔
امدادی کارکنوں کے مطابق بنگلہ دیش پہنچنے والے متعدد روہنگیا افراد بیمار ہیں۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک امدادی کارکن نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ ان افراد میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، ’’ہمیں انہیں مدد پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
کچھ لوگ گرفتاری کے خوف کی وجہ سے علاج کرانے سے گریز کر رہے ہیں۔‘‘ یہ امر اہم ہے کہ بنگلہ دیش اور میانمار کے سرحد پر ہزاروں روہنگیا افراد پھنسے ہوئے ہیں، جو شورش سے جان بچا کر بنگلہ دیش داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔